Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیٹو افواج مئی کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گی

امریکی فوجیوں سمیت تقریبا 10 ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
نیٹو افواج نے امریکہ طالبان ڈیل کے برخلاف مئی کے بعد بھی افغانستان میں رہنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیٹو کے چار سینیئر عہدے داروں نے غیر ملکی افواج کے افغانستان میں مزید قیام کے حوالے سے بتایا ہے۔
یہ اقدام طالبان کے ساتھ تنازع کو بڑھا سکتا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ تمام غیرملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔

 

نیٹو کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’اپریل کے آخر میں اتحادیوں کی جانب سے مکمل انخلا نہیں ہوگا کیونکہ شرائط پوری نہیں ہوئی ہیں۔‘
اس عہدے دار نے نئی امریکی انتظامیہ کے حوالے سے کہا کہ ’ان کے آنے سے پالیسی میں تبدیلی آئے گی اور جلد بازی میں انخلا کے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا اور ہم ایک زیادہ بہتر انخلا کی حکمت عملی دیکھ سکتے ہیں۔‘
گذشتہ سال کے آغاز میں ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق عسکریت پسندوں کی جانب سے کچھ سکیورٹی ضمانتوں کے بعد تمام غیر ملکی افواج نے رواں سال مئی میں افغانستان سے نکلنا ہے۔
ٹرمپ نے اس معاہدے کی تعریف کی تھی جس میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا۔
سابق امریکی صدر نے معاہدے کے مطابق رواں مہینے کے شروع میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی کم کرکے 25 سو کر دی تھی۔
نیٹو ذرائع کے مطابق اپریل کے بعد کیا ہو گا، اس حوالے سے منصوبوں پر غور کیا جا رہا ہے اور یہ فروری میں ہونے والی نیٹو کی اہم میٹنگ کے ایجنڈے میں سرفہرست ہو گا۔
اس صورتحال پر نیٹو کی خاتون ترجمان اوانا لجنسکو کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی نیٹو اتحادی افغانستان میں ضرورت سے زیادہ رہنا نہیں چاہتا لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری موجودگی حالات کے مطابق ہو گی۔‘
اوانا لجنسکو کے مطابق امریکی فوجیوں سمیت تقریبا 10 ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔
کابل اور کچھ غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ طالبان شرائط پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ملک میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ انہوں نے القاعدہ جیسے مسلح گروہوں سے اپنے تعلقات بھی ختم نہیں کیے۔
طالبان ان تمام الزامات سے انکاری ہیں اور ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ امن عمل کے لیے پرعزم ہیں۔‘

شیئر: