Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا احمد عمر شیخ کو فوری طور پر ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم

عدالت نے ہدایت کی ہے کہ احمد عمر شیخ کو دو دن بعد ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس میں حال ہی میں بری ہونے والے ملزم احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے احمد عمر شیخ کو ملزم کے بجائے زیر حراست فرد قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
منگل کو سماعت کے اختتام پر عدالت نے زبانی حکم نامے میں کہا کہ اس حوالے سے تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں سندھ ہائیکورٹ کا ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ احمد عمر شیخ کو فوری طور ڈیتھ سیل سے نکال کر دو دن کے لیے جیل میں آرام دہ اور مناسب جگہ پر منتقل کیا جائے۔

 

عدالت نے ہدایت کی کہ دو روز بعد انھیں کسی محفوظ، آرام دہ اور رہائشی علاقے میں منتقل کیا جائے جہاں وہ معمول کی زندگی گزار سکیں لیکن انھیں باہر کی دنیا تک رسائی نہ دی جائے۔ احمد عمر شیخ کی فیملی کو کراچی میں ان کے ساتھ آرام دہ رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ دو دن میں تمام ضروری انتظامات مکمل کیے جائیں۔ کشمیر ڈے پر احمد عمر شیخ اپنی فیملی کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ احمد عمر شیخ کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں سکیورٹی انتظامات کرنا آسان ہوں۔
عدالت نے حکم دیا کہ عمر شیخ کے اہل خانہ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک ان کے ساتھ رہ سکیں گے۔
سماعت کے دوران وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت کے وکیل یکساں موقف کے ساتھ سامنے آئے۔ سرکاری وکلا کا موقف تھا کہ ملزمان کو کسی صورت رہا نہ کیا جائے اور اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل قرار دیا جائے۔
 ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی رہائی کے حوالے سے کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری نہیں کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی نہیں تھی۔

عمر شیخ کے وکیل نے استدعا کی کہ عمر شیخ کو لاہور میں رکھا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جس کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ’احمد عمر شیخ کوئی معمولی مجرم نہیں۔ ڈینیئل پرل قتل کے سارے واقعے کا ماسٹر مائنڈ عمر شیخ تھا۔ ان ملزمان نے پورے پاکستان کو دہشت زدہ کیا۔ وفاق اور سندھ حکومت کو ایسے دہشت گردوں کی رہائی پر تشویش ہے۔ ایسے دہشت گردوں سے پورے ملک کے عوام کو خطرہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی قوم گزشتہ 20 سال میں دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئی۔ سانحہ مچھ جیسے واقعات دنیا میں کہیں نہیں ہوئے۔ احمد عمر شیخ پاکستان کے عوام کے لیے خطرہ ہیں۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’احمد عمر شیخ کا دہشت گردوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں۔ جن کارروائیوں کا ذکر کیا ان سے احمد عمر شیخ کا تعلق کیسے جڑتا ہے۔‘
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ’احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے، دہشتگردی کے الزام پر کیا کارروائی ہوئی؟ ‘
اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ’ریاست سمجھتی تھی احمد عمر شیخ کے خلاف ڈینیئل پرل قتل مضبوط کیس ہے۔‘
 جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کل تک آپ کا اعتراض تھا کہ ہائی کورٹ نے وفاق کو نہیں سنا۔ آج آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے نوٹس نہ کرنے والا اعتراض ختم ہو چکا۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میرا اصل اعتراض نوٹس والا ہی ہے۔‘  جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ’کیا سندھ حکومت نے ہائی کورٹ میں وفاق کو نوٹس نہ ہونے پر اعتراض کیا تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ’ہائی کورٹ میں وفاق کی نمائندگی نہ ہونے کا اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔‘

ڈینیئل پرل قتل کے مرکزی کیس میں فیصل صدیقی ایڈووکیٹ امریکی صحافی کے والدین کی جانب سے پیش ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’ملزمان کی حراست بظاہر صوبائی معاملہ لگتا ہے۔ وفاقی نے اپنا اختیار صوبوں کو تفویض کر دیا۔ بظاہر تو صرف ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس دینا بنتا ہے۔ درخواست گزار نے قانون کو چیلنج نہیں کیا کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا جاتا۔ بظاہر اٹارنی جنرل کا اعتراض نہیں بنتا کہ انہیں کیوں نوٹس جاری نہیں ہوا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت وفاقی حکومت کو اس کے اختیار سے محروم نہیں کر سکتی۔‘ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ’کسی اختیار کو استعمال کرنے کے لیے مواد بھی ہونا چاہیے۔ صوبائی حکومت کے پاس ملزمان کو حراست میں رکھنے کا مواد نہیں تھا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کے پاس مواد ہو سکتا ہے۔  جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ وفاق نے وہ مواد صوبے کو فراہم کیوں نہ کیا؟
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’لگتا ہے اٹارنی جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجوہات نہیں پڑھیں۔ یہ بغیر تیاری کے بولے جا رہے ہیں۔ محترم آپ ایک بار کیس کو پڑھ لیں اور تیاری کے ساتھ آ جائیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کی بدنیتی کی بنیاد پر ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ بدنیتی یہ تھی کہ بار بار حراست میں رکھنے کے احکامات جاری ہوئے۔ وفاق دکھا دے کہ ان لوگوں کے خلاف اس کے پاس کیا مواد ہے۔ ہر کیس کی ایک تاریخ ہوتی ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا مرکزی ملزم پاکستانی شہری ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ دہری شہریت رکھتا ہے یعنی اس کے پاس پاکستان اور برطانیہ کی شہریت ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کسی کو حراست میں رکھنے کا مطلب ہے نو ٹرائل! احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے۔‘

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ قتل کی ویڈیو میں بھی ملزم کا چہرہ واضح نہیں تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’الزام تو اغوا کا تھا۔ اس پر تو قتل کا مقدمہ ہی نہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب میت نہیں تو قتل کا مقدمہ کیسے بن سکتا ہے؟ قتل ہوا ہے؟ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ قتل کی ویڈیو میں بھی چہرہ واضح نہیں تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے بعد اٹارنی جنرل خاصے پریشان دکھائی دیے اور کافی دیر تک خاموش کھڑ رہے۔
اس دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے درخواست کی وفاق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے عدالت کم از کم حکم امتناعی جاری کر دے۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’عدالت حکم امتناع جاری نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو اسی وقت اپنے دلائل کا آغاز کریں اور پانچ منٹ میں اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھیں۔ ہم بے گناہ افراد کو حراست میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ اندھیر نگری کا زمانہ نہیں ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر کیسے اعتراض کر سکتی ہے؟ وفاقی حکومت نے تو ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج ہی نہیں کیا۔ کیا عدالت غیرقانونی حراست کو درست قرار دے دے؟
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’وفاق اپیل دائر کرنا چاہتا ہے اس کے لیے کم از کم ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔ اگر عدالت نے عمر شیخ کو رہا کیا تو وہ فرار ہو جائے گا۔ جس کے ناقابل تلاقی اثرات ہوں گے۔ عدالت زمینی حقائق کونظر انداز نہ کرے۔‘

عمر شیخ کے وکیل نے استدعا کی کہ عمر شیخ کو لاہور میں رکھا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کیا ملزمان کو فرار ہونے سے بچانے کے لیے جیل میں رکھنا لازمی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ باہر کسی جگہ پر رکھا جا سکتا ہے لیکن اہل خانہ کو ساتھ نہ رہنے دیا جائے۔ اہل خانہ ساتھ ہوں گے تو موبائل فون سے رابطے ہو سکتے ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ’موبائل فون تو حکومت کے بقول احمد عمر جیل میں بھی استعمال کرتا رہا۔ جیل میں کیا کچھ ہوتا ہے ہم سب جانتے ہیں۔‘
عمر شیخ کے وکیل نے استدعا کی کہ عمر شیخ کو لاہور میں رکھا جائے۔ ان کی بیمار والدہ برطانیہ سے انھیں ملنے آئی ہیں۔ عمر شیخ کی گرفتاری کے وقت تین ماہ کا بچہ اب اپنے باپ کو دیکھے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب زیرحراست فرد کو ملزم نہیں کہا جا سکتا۔ اب ہمیں توازن بھی برقرار رکھنا ہے۔ انھوں نے عمر شیخ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا آپ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ملزمان فرار نہیں ہوں گے؟‘ جس پر انھوں نے کہا کہ وہ بڑی سے بڑی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی عمر شیخ کو لاہور منتقل نہ کرنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کراچی میں ہی پرسکون، رہائشی ماحول میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے کہا کہ اگلے ہفتے بینچ دستیاب نہیں اس سے اگلے ہفتے میں کسی دن سماعت رکھی جائے گی۔ اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب آپ کو تیاری کے لیے زیادہ وقت مل گیا ہے اس لیے اپیل فائل کریں اور پوری تیاری کرکے آئیں۔‘

شیئر: