میاں خالد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ بارشوں کا سلسلہ 30 سالوں کے ڈیٹا پر محیط ہوتا ہے۔
’معمول سے ہٹ کر بارشوں کے موسم کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے چونکہ درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے بارشوں کا موسم اپنے پیٹرن تبدیل کر رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ درجہ حرارت میں تبدیلی آنے سے موسم کا پورا پیٹرن ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ درجہ حرارت زیادہ ہونے سے کچھ علاقوں میں بارشیں زیادہ ہونا شروع ہو گئی ہیں جب کہ کچھ علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
’کچھ عرصے پہلے بلوچستان میں بارشیں ہوتی تھیں اب موسم سرما میں بلوچستان میں بارشیں ہو ہی نہیں رہیں۔‘
پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی مثال دیتے ہوئے ڈائریکٹر میاں خالد محمود نے کہا کہ ’پہلے پورا ہفتہ بارشیں ہوتی تھیں اب وہی بارشیں ایک دن میں ہو جاتی ہیں، پہلے موسم سرما میں اگر 120 دنوں میں 70 دن بارش ہوتی تھیں اب وہی بارشیں 30 دنوں میں ہو جاتی ہیں۔‘
موسمیاتی تبدیلی کی ماہر مریم شبیر درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی آلودگی کو بارشوں کے سلسلے میں کمی کی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ’بارشوں کے سلسلے میں تبدیلی کی وجہ درختوں کی کٹائی، ٹریفک اور صنعتوں کے باعث ہونے والی ماحولیاتی آلودگی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسم گرما میں شدید گرمی اور موسم سرما میں شدید سردی کی لہر ہوتی ہے اسی وجہ سے ہیٹ ویوز اور کولڈ ویوز کا سامنا رہتا ہے۔‘
میاں خالد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ پچھلے دس سالوں سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اوسط عشاریہ 8 ڈگری اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان کے درجہ حرارت میں اوسط ایک ڈگری سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہےجس کی وجہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہے۔
’پاکستان میں صحرا، میدانی علاقے، پہاڑ اور پانی موجود ہے زمین کے مختلف ساخت ہونے سے موسمیاتی تبدیلی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔‘
بارشوں کے سلسلے میں تبدیلی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر میاں خالد محمود کے مطابق رواں سال دسمبر اور جنوری میں معمول سے کم بارشیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔ ’مارچ میں بھی یہی توقع کی جارہی ہے کہ بارشیں معمول سے کافی حد تک کم ہوں گی جس سے گندم، چنا اور دیگر فصلوں پر اس کا اثر پڑے گا۔‘
ان کے خیال میں آئندہ دو سے تین دہائیوں میں پانی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ’اسی طرح درجہ حرارت بڑھتا گیا تو گلیشیئرز ختم ہونا شروع ہو جائیں گے اور پچھلے پانچ سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ آہستہ آہستہ گلیشیئرز کم ہو رہے ہیں۔ اور یہ ایک سست عمل ہے جو کہ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے۔‘
مریم شبیر کے مطابق موسمیاتی تبدیلی پر کنٹرول نہ کیا گیا تو آئندہ آنے والے سالوں میں خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بارشوں کا سلسلہ تبدیل ہونے سے فصلیں متاثر ہوں گی اور خوراک کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔
’درجہ حرارت بڑھنے سے پاکستان میں سیلاب زیادہ آنے کے امکانات ہیں جبکہ ہیٹ ویوز میں اور کولڈ ویوز میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
بہار اور خراں کا موسم ختم ہونا
میاں خالد محمود کہتے ہیں پاکستان میں چار موسم ہوا کرتے تھے لیکن زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے چار موسم کے لیے جانے جانا والے ملک میں اب دو موسم تقریبا ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔
’درجہ حرارت عمومی طور پر بڑھ گیا ہے جس سے موسم سرما کا دورانیہ سکڑ گیا ہے۔ پہلے نومبر سے موسم سرما کا آغاز ہوتا تھا جو کہ اب دسمبر کے وسط سے شروع ہو کر فروری تک جاتا ہے جبکہ خزاں اور بہار کے موسم تقریبا ختم ہو گئے ہیں۔ اب موسم سرما کے فوراً بعد موسم گرما شروع ہو جاتا ہے، پہلے دو مہینے معتدل موسم ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔‘
کیا درخت لگا کر موسمیاتی تبدیلی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟
موسمیاتی تبدیلی کی ماہر مریم شبیر کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں ہے۔ ’درختوں کی کٹائی کی شرح زیادہ جبکہ لگانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ لیکن صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں ہے دیگر ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے جیسے صنعتوں اور گاڑیوں کے باعث ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
میاں خالد محمود کے مطابق درخت لگا کر موسمیاتی تبدیلی پر کسی حد تک قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔
’درخت لگا کر موسمیاتی تبدیلی پر فرق پڑتا ہے اور بارشیں زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن آپ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن خطے میں موجود دیگر ممالک اگر اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے تو ان کے منفی اثرات بھی آپ پر مرتب ہوں گے۔ ‘