Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رد الفساد

درحقیقت پاکستان کو  جتنا خطرہ اس  وقت  بیرونی عناصر سے ہے، اس سے کہیں  زیادہ خطرہ اندرونی سازشوں  اور منقسم  سوچ سے ہے
 
محمد مبشر انوار
 
 اسلام اپنی آفاقی جبلت ،مسلم حسن  اخلاق اور انسانی مساوات کے فلسفے پر پھیلا تھا۔ آج بھی کچھ  دانشور اس حقیقت سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں ،جو  ان کی ذاتی سوچ ہے  اور جس کا انہیں حق حاصل ہے لیکن اسی طرح  دوسروں کو بھی  یہ حق حاصل ہے کہ ان کی   سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے دیں  یا حقائق کو  واضح کریں۔  درحقیقت نبی اکرم اللہ رب العزت کی طرف سے آخری نبی کے طور پر مبعوث ہوئے اور اب قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گاگو کہ آپ سے قبل جو  انبیاء اس  دنیا میں تشریف لائے ،انہیں فقط تبلیغ کا حکم ہوا کہ گمراہ بندوں میں یہ بتایا جائے کہ  اللہ صرف ایک ہے،اسی کی  وحدانیت ہے،  نتائج کی پروا کئے  بغیر،صرف اسی کاپرچار کریں۔ کہیں بھی طاقت کے استعمال کا حکم نہیں ملتا ماسوائے مسلط کی گئی جنگ میں  دفاع سے ممانعت نہیں تھی یا اگر للکارا گیا  تب تلواریں نیام سے باہر آئیں،دوسری طرف اللہ رب العزت نے اپنے محبوبسے جب  ریاست قائم ہو گئی، فرمایا کہ اے میرے مجبوبآپدعوت دیں،اگر غیر مسلم آپکی دعوت کے نتیجے میں ایمان لے آئیں  تو وہ آپ کے مسلمان بھائی ہیں  اور ان کے وہی حقوق ہیں جو کسی بھی  دوسرے مسلمان کے ہیں وگرنہ  انہیںبعوض جزیہ اپنی امان میں لیں  اور اگر دونوں  شرائط تسلیم  نہ کریں تو ان سے جنگ کریں۔یہاں حکمت یہی نظر آتی ہے کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ نے  وعدہ فرمایا ہے کہ  اسلام غالب آ کر رہے گا  لیکن  اس کے لئے جو  طریقہ کار وضع کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی اللہ تبارک  وتعالیٰ نے  اپنے کسی نبی سے  بیان نہیں فرمایااور چونکہ اب قیامت تک کسی اور پیغمبر کو نہیں آنا،اس لئے اسلام کی  ترویج کا یہی طریقہ ہے اور نبی آخرالزمان کو یہ اختیار دیا گیا کہ  روئے زمین پر آباد  تمام انسانوں کو حق کی دعوت دیں اور انہیں حلقہ بگوش اسلام کریں۔
 
اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے یہ بھی فرمایا کہ تم اس وقت ہی غالب آؤ گے جب تم میرے احکامات کی تعمیل اور نبی اکرم کی سنت پر قائم رہو گے ،اس اتباع کا صحیح حق خلفائے راشدین نے ادا کیا جس کے نتیجے میں  اسلام بڑی تیزی سے پھیلا۔ اس اتباع میں صرف تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ سنت نبویکے مطابق کسی بھی جگہ جنگ کرنے سے پہلے  اسلام کی دعوت دی گئی،پھر جزیہ کے عوض امان کا   وعدہ دیا گیا، تلوار ان  شرائط کے نا منظور ہونے پر نکلی۔ برصغیر میں  رہنے والے ، ذاتوں،برادریوں میں بندھے ہوئے لوگ تھے  جنہیں مسلمان اولیاء کرام نے حسن اخلاق اور  مساوات کے عملی مظاہرے سے مشرف بہ اسلام کیا۔ اس خطے میں تلوار کااستعمال یاتو ایرانی بھگوڑوں کے تعاقب میں ہوا  یا راجہ داہر کے  اسلامی قافلے کو  لوٹنے کی پاداش میںجب ایک مسلمان  زادی نے اپنی  فریاد حجاج بن یوسف کو بھیجی۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ محمد بن قاسم کی  یلغار کے  باوجود مسلم لشکر نے  اسلامی جنگی اصولوں کی بھر پور  پیروی کی  اور فتح کے بعد مقامیوں سے بہترین حسن سلوک کیا ۔گو  محمد بن قاسم کے  حوالے سے کچھ منفی  روایات بھی سننے کو ملتی ہیںلیکن  جب خلیفہ کے تبدیل  ہونے پر محمد بن قاسم کے عمل کو دیکھا جائے  تو ان روایات کی ضعیفی پر یقین  پختہ ہو جاتا ہے۔
 
آج پاکستان اس نسل کے نرغے میں ہے،جسے  اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے ہاتھوں کس نظرئیے ،کن لوگوں  اور کس خطے کو نقصان پہنچ رہا ہے،انہیں صرف  وہ سبق یاد ہے جو اسے برین واش کر کے سکھایا گیا ہے،اسے  تو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ دوسرے فرقے کے اسلام کے متعلق سوال ہی پوچھ سکے۔جنرل ضیاء الحق  اوران کے رفقاء نے ابن الوقت مفاد پرستوںکے ساتھ مل کر ، ہوس اقتدار میں جو فاش غلطی کی تھی،اس کا  خمیازہ آج ملک  و قوم بھگت رہے ہیں لیکن اس غلطی کو  سدھارنے میں جو کاوشیں  سیاستدانوں کو کرنی چاہئیں تھی، وہ بھی کہیں نظر نہیں آتی بلکہ آج بھی ماضی کا  رونا روتے ہوئے  وہ  سارا الزام  فوج پر دھر کر بری  الذمہ ہورہے ہیں۔  اس ملک کے باشعور اور محب الوطنوں کو اس حقیقت سے  انکار نہیں  اور نہ  ہی وہ کسی کو بلا وجہ  مبرا سمجھتے ہیں لیکن  سیاستدانوں کے صرف اس واویلے سے ،ان کی نالائقیوں،حماقتوں ،مفاد پرستیوں اور   نا اہلیوں سے  صرف نظر بھی نہیں کر سکتے  جو انہیں اور ان کے  اندھے  مقلدوں کو گوارا نہیں۔  دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کسی  ایک شخص کا نام  قطعاً نہیں بلکہ فی الوقت یہی  ایک ’’ادارہ‘‘ ہے،جو مسلسل  اپنے  اعمال و کردار کی تطہیر میں ہمہ وقت مشغول رہتا ہے۔ماضی کی  غلطیوں سے سیکھتے ہوئے،آج فوج کسی صورت  سیاست میں  مداخلت کی  روادار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ملکی سالمیت سے  غافل بھی نہیں   رہ سکتی  لہذا جو بیج بھی  ماضی میں ان کی  سابقہ قیادت سے بویا گیا،   وہ آج  خود اس کی  بیخ کنی میں مصروف ہے لیکن  نااہل  سیاستدان آج ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے  ذاتی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں،اگر یہی صورتحال رہی تو عین ممکن ہے کہ  دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ آج کے  وہ سیاست دان بھی کوڑے  دان کا ڈھیر ہو جائیں،جن کی نشو ونما بھی  سابقہ فوجیوں ہی کی غلطی تھی۔
 
درحقیقت پاکستان کو  جتنا خطرہ اس  وقت  بیرونی عناصر سے ہے، اس سے کہیں  زیادہ خطرہ اندرونی سازشوں  اور منقسم  سوچ سے ہے،قیادت کے شدید  ترین قحط الرجال سے ہے کہ اس  وقت کوئی بھی ایسی قیادت  موجود نہیں جو ملکی  سالمیت اور نظریاتی  سرحدوں کی  حفاظت کر سکے۔ صوبوں کے  درمیان تقسیم اور  غلط فہمیوں کو  پروان چڑھا کر ’’ڈنگ ‘‘ تو ٹپایا جا سکتا ہے مگر ایک  قوم کی شکل اختیار نہیں کی جا سکتی، اس وقت دہشت گردی کے خلاف جس قسم کے پمفلٹ  پنجاب میں تقسیم کئے جا رہے ہیں،اس سے کیا  مقاصد حاصل کئے جائیں گے، یہ پنجاب حکومت اور اس کے کارپرداز ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں لیکن قومی سطح پر صوبوں کو  دور کرنے کے مترادف ہے۔  دوسری طرف پشتونوں ،سندھیوں اور بلوچیوں کی سوچ پر بھی حیرت ہوتی ہے جو مسلسل یہ  راگ الاپتے رہے ہیں کہ پنجاب میں دھماکے کیوں نہیں ہوتے؟دھماکے صرف  ہمارا مقدر کیوں  ہیں؟ افسوس ہوتا ہے اس سوچ پر کہ ہمیں تو مل کر ،پاکستانی بن کر ان حملوں کی ملک کے کسی بھی حصے  پر مخالفت کرنی چاہئے نہ کہ گھر کے ایک حصے پر دھماکوں کے  بعد دوسرے حصے پر حملوں کی  دعوت دینی چاہئے۔ حقیقت میں یہی  سیاستدانوں کا امتحان ہوتا ہے ،جس میں سب سیاستدان ناکام ثابت ہو رہے ہیں،ماضی کی غلطیوں کو  سدھارنے کے لئے  فوج آپریشن ’’رد الفساد‘‘ کا اعلان کر چکی ہے  اور امید کی جانی چاہئے کہ اس آپریشن میں بلا تفریق دشمنان پاکستان (دہشت گرد  و سہولت کار)کے  خلاف بے لاگ آپریشن کر کے ملک  دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جائے گا۔ 
 

شیئر: