ہائی کورٹ پر حملہ، اسلام آباد بار کے سیکرٹری سمیت چار وکلا کو جیل بھیج دیا گیا
ہائی کورٹ پر حملہ، اسلام آباد بار کے سیکرٹری سمیت چار وکلا کو جیل بھیج دیا گیا
جمعہ 12 فروری 2021 11:46
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
پیر کو اسلام آباد کچہری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن پر وکلا نے حتجاج کیا تھا۔ فوٹو سکرین گریب
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کرنے کے مقدمے میں نامزد چار وکلا کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے سات روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں بعض وکلا نے دروخواست دائر کی ہے کہ انہیں پولیس ہراساں کر رہی ہے، جبکہ ان وکلا کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جمعے کو انسداد دہشت گردی عدالت میں ہائی کورٹ حملہ کیس میں گرفتار چار ملزمان کو پیش کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری لیاقت کمبوہ سمیت چار وکلا کا سات روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا۔
تین ملزمان کو ہائی کورٹ حملہ کیس اور ایک ملزم کو کچہری میں سیشن جج کی عدالت میں توڑ پھوڑ پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ہائی کورٹ حملہ کیس کی ایف آئی آر تھانہ رمنا جبکہ سیشن جج کی عدالت میں توڑ پھوڑ کا مقدمہ تھانہ مارگلہ میں درج کیا گیا تھا۔
جیل بھجوائے گئے وکلا کو 19 فروری کو دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کے خلاف توہین عدالت کے 32 مقدمات کے لیے پانچ بینچ بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔ توہین عدالت کیس کی سماعت 18 فروری کو ہوگی جس میں وکلا کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے حوالے سے نوٹسز ارسال کر دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور جسٹس محسن اختر کیانی کو وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے مقرر کردہ بینچز میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز کے بینچز بھی وکلا کے خلاف توہین عدالت کیسز نہیں سنیں گے۔
جسٹس عامر فاروق، جسٹس فیاض احمد جندران، جسٹس غلام اعظم قمبرانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار علیحدہ علیحدہ مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے۔
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پولیس کی جانب سے بے قصور وکلا کے گھروں پر چھاپوں کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کے روز ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات اور ایس ایس پی پولیس کو طلب کر کہ برہمی کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ بے گناہ اور پروفیشنل وکلا کو کون ہراساں کر رہا ہے؟ یا اس معاملے پر کوئی گیم کھیل رہا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل مجرمان کے بجائے پولیس بے گناہوں کو ہراساں کر رہی ہے، اور جو حملے میں ملوث ہیں ان کو پکڑ نہیں سکتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایس ایس پی پولیس کو تمام معاملے کی انکوائری کرنے کا کہنا ہے۔ چیف جسٹس نے ایک دن کا وقت دیتے ہوئے انکوائری رپورٹ سنیچر کو پیش کرنے کا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’پتہ کریں کہ کس نے ایسا کیا اور کیوں کیا؟ 5 فیصد لوگ اس واقعے میں ملوث تھے جو سب کی بدنامی کا باعث بنے۔‘
چیف جسٹس نے پروفیشنل اور بے گناہ وکلا کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا کہا ہے۔
خیال رہے کہ سی ڈی اے کی جانب سے وکلا کے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے قائم کیے گئے چیمبرز گرائے جانے کے خلاف احتجاج کے دوران وکلا نے سیشن عدالت اور بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بول دیا تھا اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ان کے چیمبر میں محصور کر دیا تھا۔
جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے وکلا کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ وکلا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جبکہ سماعت 18 فروری کو ہوگی۔