’قانون تو معصوم ہوتا ہے‘، رضا ربانی کے جواب اور چیف جسٹس کی مسکراہٹ
’قانون تو معصوم ہوتا ہے‘، رضا ربانی کے جواب اور چیف جسٹس کی مسکراہٹ
منگل 23 فروری 2021 14:34
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بار کونسلز کی جانب سے دلائل دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صدارتی ریفرنس میں کسی کا کوئی حق نہیں بنتا۔‘
منگل کو سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے موقف اپنایا کہ ’2013 کے ریفرنس میں کسی بار ایسوسی ایشن کو نہیں سنا گیا۔ بار ایسوسی ایشنز اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کے خلاف پٹیشن لائیں۔‘
انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرین) کو دلائل دینے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ ’اب پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین بن کر آ گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ذیلی تنظیمیں بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ریفرنس میں لازمی فریق ہے اور ہم متاثر ہو سکتے ہیں۔ سینیٹ امیدواروں کو ٹکٹ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے دیا ہے۔ عدالت کو ہمیں ضرور سننا چاہیے کیونکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے امیدوار متاثر ہو سکتے ہیں۔ کراچی سے وڈیو لنک پر 45 منٹ کے دلائل کی اجازت دے دیں۔‘
صدر سندھ ہائیکورٹ بار نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل کو شاید غلط فہمی ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی عوام کے لیے کام کرتے ہیں۔ بار کا نکتہ نظر رضا ربانی اور اٹارنی جنرل سے مختلف ہے، ہمیں سنا جائے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہر شخص کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے خلاف ہے۔ ہم اس ساری مشق کو ضائع نہیں جانے دینا چاہتے۔‘ جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ ’آئین کی تشریح کے لیے جس کی معاونت کی ضرورت ہو گی لیں گے، یہ مخالفانہ مقدمہ نہیں۔‘
سپریم کورٹ نے کل پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، مسلم لیگ ن اور سندھ ہائیکورٹ بار کو 30، 30 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کے علاوہ کوئی تحریری دلائل دینا چاہے تو آفس میں جمع کرا سکتا ہے۔‘
جبکہ جماعت اسلامی کے وکیل نے بھی وہ ہی دلائل اپنا لیے جو رضا ربانی کے دلائل ہیں۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’رضا ربانی صاحب آپ کے دلائل شروع ہونے سے پہلے اٹارنی جنرل کو کچھ دیر سن لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے خفیہ رائے شماری سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’آئرلینڈ میں ایوان زیریں میں ووٹنگ کا خفیہ ہونا لازم ہے۔ یہ ایوان زیریں کا معاملہ ہے یہاں ہم ایوان بالا کی بات کر رہے ہیں۔ فلور کراسنگ کا ووٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے قوانین کی مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ ووٹر کا حق اوپن بیلٹ نہیں ہو سکتا۔ آئین شہریوں کے ووٹ کے تقدس کا ضامن ہے۔ انتخابات میں فیصلے کا اختیار شہری ووٹر کو ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عام شہریوں کے لیے ووٹ کا خفیہ رہنا ضروری ہے۔‘
رضا ربانی کے دلائل شروع کیے تو کہا کہ ’دلائل سے قبل اٹارنی جنرل کی بات کا جواب دوں گا۔ جن آئرئش انتخابات کا حوالہ دیا گیا وہاں خفیہ ووٹنگ کا مکمل تقدس برقرار ہے۔ ایوان بالا یا زیریں کا مسئلہ نہیں بلکہ ووٹ کے خفیہ ہونے کا معاملہ ہے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینیٹ میں بھی ملے۔ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت سیٹوں کی تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ جہاں ووٹوں کی خرید و فروخت ہو گی قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کو ووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے۔ بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔‘
رضا ربانی کی دلیل کے جواب میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’ایسا طریقہ بھی بتا دیں جس میں ووٹ دیکھا بھی جائے لیکن سیکریریسی متاثر نہ ہو۔‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے سے پہلے کے مراحل ہیں۔ ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے۔ کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا؟ ووٹ ڈالنا ثابت ہو گا تو ہی معلوم ہو گا رقم الیکشن کے لیے دی گئی۔‘
ایک موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور سینیٹر رضا ربانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’رضا ربانی صاحب قانون تو معصوم ہوتا ہے۔‘
رضا ربانی نے برجستہ جواب دیا کہ ’نہ صرف معصوم ہوتا ہے بلکہ قانون تو اندھا بھی ہوتا ہے جج صاحب۔‘
رضا ربانی کے جواب پر چیف جسٹس گلزار احمد مسکرا دیے۔