پاکستان کی سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سمیت تمام اراکین کو کل منگل کے روز ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سینٹ انتخابات کی سکیم طلب کر لی ہے۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ کا انتخاب خفیہ ہو مگر شکایت پر جانچ ہونی چاہیے، چیف الیکشن کمشنر سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پیر کے روز پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
مزید پڑھیں
-
’حکومت کا سینیٹ کے انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ‘Node ID: 525001
-
سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے کتنے سینیٹرز منتخب ہوں گے؟Node ID: 526911
-
سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون سی آپشنز باقی ہیں؟Node ID: 539046
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے آخری مرحلے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دی ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ ہماری بار کونسلز سیاسی جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ پاکستان بار کونسل اور سندھ ہائی کورٹ بار نے ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔ پاکستان بار کونسل اور سندھ ہائی کورٹ بار نے ریفرنس پر رائے دینے کے خلاف بات نہیں کی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بار کونسلز نے اپنی درخواستوں میں آئین کے مطابق فیصلے کا لکھا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تشویش ناک بات ہے کہ سیاسی جماعتیں اور بار کونسلز اوپن بیلٹ کی مخالفت کر رہی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ’بار کونسلز نے اپنی قراردادیں ججز کو بھی بھجوائیں۔ مقدمہ سننے والے ججز کو قراردادیں بھجوانا پروفیشنل رویہ نہیں۔ واضح کرنا ہوگا بار کونسلز کا کام کہاں ختم ہوتا ہے اور عدالت کا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’بار کونسلز کو سب سے زیادہ خطرہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے ہے۔ بار کونسلز ماضی میں آئین اور قانون کی بالادستی کا کردار ادا کرتی تھیں۔ بار کونسلز سے درخواست کروں گا کہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں۔ جہموریت کی بقاء شفاف انتحابات میں ہی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’بار کونسلز کا مؤقف آزادانہ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی جماعتوں والا۔‘
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ’اسمبلی قانون سازی سے وفاقی ادارے کو پابند بناتی ہیں۔ پارلیمان نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کی ترمیم نہیں کی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’بعض اوقات عدالتی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدالت تشریح کرتی ہے اور پارلیمنٹ اس کے مطابق ترمیم کرتی ہے۔ ماضی میں عدالتی احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیارات دیے گئے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ شفاف الیکشن یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آئین شفافیت یقینی بنانے کا کہتا ہے تو الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بااختیار ہے، الیکشن کمیشن انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اوپن بیلٹ میں بھی ووٹ خفیہ طور پر ہی ڈالا جائے گا۔ ماضی میں عدالتی احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیارات دیے گئے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، عام تاثر ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل سے کرپشن روکنے کی سکیم نہیں بنائیں۔‘
