Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

25 مارچ جب ایوب کا اقتدار ختم اور بھٹو کا عروج شروع ہوا

ذوالفقارعلی بھٹو نے وزارت کو خیرباد کہا تو راتوں رات وہ مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ (فوٹو: پامیر ٹائمز)
یہ 10 نومبر 1969 کا واقعہ ہے۔ پشاور میں ایک عوامی اجتماع کے شرکاء کی نظریں سٹیج پر خطاب کرنے والی اہم شخصیت پر جمی ہوئی ہیں۔ اچانک یکے بعد دیگرے گولیوں کے دو دھماکوں سے پنڈال میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔ پچھلی صفوں سے ایک نوجوان کو پستول سمیت قابو کرکے پنڈال سے باہر لے جایا جاتا ہے اور مہمان شخصیت کے گرد محافظ حفاظتی حصار بنا لیتے ہیں۔
یہ مہمان اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان تھے۔ فائرنگ کرنے والا نوجوان طالب علم ہاشم ولد حاجی امین عمر زئی کا رہنے والا تھا اور اسے قابو کرنے والا فوج کا ایک سابق صوبیدار تھا۔
گولیاں ہوا میں چلائی گئی یا صدر ایوب براہ راست اس کا نشانہ تھے ۔اس بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں اور افواہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس خبر کو صدر ایوب پر قاتلانہ حملے کے طور پر لیا۔
محکمہ اطلاعات نے پہلے اس واقعہ پر چپ سادھے رکھی، پھر روسٹرم پر بلٹ پروف شیشے کی دیوارنصب ہونے کی خبر جاری کی، مگر بعد میں وہ بھی واپس لے لی ۔
اس واقعہ کی درست اطلاعات کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایوب کابینہ کے رکن ایس ایم ظفر جنہیں اس واقعے کی خبر امریکا میں ایک اخبار سے پتہ چلی، اپنی کتاب Through The Crisis میں لکھتے ہیں کہ ’اس حملے نے صدر ایوب کے اپنی ذات پر اعتماد اور حکومت وقت کی خود اعتمادی دونوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔‘
جلسے میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے صدر ایوب کے زوال کی مدہم چاپ نے جنم لیا۔ ایوبی اقتدار کے بظاہر مستحکم دیو قامت مجسمہ میں غیر مقبولیت کی اتنی دراڑیں پڑ چکی تھی کہ 25 مارچ کو یہ تمام جاہ و جلال کے ساتھ منہ کے بل آن گرا۔

نواب آف کالا باغ کی رخصتی نے صدر ایوب کے ناقابل تسخیر ہونے کا طلسم توڑ دیا۔ (فوٹو: فلِکر)

فرانس کے مشہور رہنما جنرل ڈیگال کے ساتھ موازنے کی نسبت سے ایوب خان کو اندرون و بیرون ملک ایشیا کا ڈیگال کہا جاتا تھا۔ حملے سے دو ہفتے قبل 27 اکتوبر کو انہیں برسراقتدار آئے 10 برس مکمل ہوئے تھے۔
ایوب حکومت نے دس برسوں کے کارناموں اور کامیابیوں کا چرچا کرنے کے لیے عشرہ ترقی و اصلاحات منانے کا فیصلہ کیا۔ اس تشہیری مہم کے دوران سال بھر ذرائع ابلاغ اقتصادی اور سماجی ترقی کے دلفریب نعروں اور مثالوں سے بھرے رہے۔ پر اس مہم کے اختتام سے محض پانچ دن قبل ملک بھر میں چینی کی راشنگ کے حکومتی فیصلے کی خبر نے پڑھنے والوں کو مخمصے میں ڈال دیا کہ کس خبر پر یقین کریں۔
مارشل لا کے ذریعے حکومت سنبھالنے والے ایوب خان نے 1965 تک بلا روک ٹوک حکومت کی اور اپنے آئین اور اصلاح کے ایجنڈے کے راستے کی ممکنہ رکاوٹ سیاستدانوں کو انہوں نے’ایبڈو‘ کے ذریعے سیاسی میدان سے باہر کر دیا تھا۔
مغربی دنیا بالخصوص امریکا کی غیر معمولی قربت کے تاثر نے اقتدار پر گرفت مضبوط بنانے میں ان کی معاونت کی۔
ایوبی اقتدار کے مستحکم قلعے میں پہلا شگاف تاشقند معاہدے نے ڈالا۔ معاہدے کے مندرجات سے اعلانیہ اختلاف کرنے والے ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت کو خیرباد کہا تو راتوں رات وہ مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں تک جا پہنچے۔
عالمی مالیاتی اداروں کی ملازمت سے پاکستان کی وزارت خزانہ کی کرسی پر متمکن رہنے والے محمد شعیب نے بھی انہیں الوداع کہہ کر پرانی ملازمت دوبارہ اختیار کی تو ایوب خان کے نظام کی کمزوریاں نمایاں ہونے لگیں۔
طاقت کی علامت سمجھے جانے والے نواب آف کالا باغ کی رخصتی نے بھی صدر ایوب کے ناقابل تسخیر ہونے کا طلسم توڑ دیا۔ مغربی پاکستان کے وزیر محمد ہارون اور لسبیلہ کے جام محمد صادق کے مستعفی ہونے سے ایوب خان کے سیاسی مخالفین کے حوصلے بلند ہو گے۔

شیخ مجیب الرحمان کو اگرتلہ سازش کیس سے رہا کر کے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک کروایا گیا۔ (فوٹو: ایشین ایج)

آج کل پاکستان میں اپوزیشن سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کا جا بجا تذکرہ ہوتا ہے۔ 1967 میں ایوب خان کے خلاف سیاسی جماعتوں نے بھی مل کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے حکومت مخالف اتحاد تشکیل دیا تھا۔ لیکن اس دور کے مقبول اپوزیشن رہنماؤں ولی خان، مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن نے پی ڈی ایم سے دوری اختیار کیے رکھی۔
اپوزیشن کی تقسیم شدہ حکمت عملی اور مادر ملت کی رحلت کے بعد بے چین سیاسی فضا کو کسی کرشماتی شخصیت کی ضرورت تھی۔
ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت چھوڑنے کے بعد راولپنڈی سے کراچی تک ٹرین کا سفر کیا تو استقبال کے لیے عوام کا سمندر امڈ آیا۔ عوامی موڈ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ کشمیر پر عوامی امنگوں کے موافق سوچ اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے خدوخال پر غیر مصالحانہ رویے نے ان کے لیے پڑھے لکھے طبقے میں مقبولیت کا دروازہ کھول دیا۔ عوامی نبض شناسی کے ہنر میں یکتا بھٹو نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے سے نکال کر گلی محلے تک پہنچا دیا۔
سیاسی مخالفین پر کرپشن کے مقدمات کو کردار کشی کے لیے استعمال کرنے کا رواج اور رجحان آج ہی نہیں بلکہ ایوب دور میں بھی عروج پر تھا۔ بھٹو کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے ان پر سرکاری ٹریکٹروں کے ذاتی استعمال کا مقدمہ درج کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ان پر اپنی زمینوں کے ریکارڈ میں ردوبدل کر کے انہیں 284 ایکڑ سے 584 ایکڑ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
سکھر میں ایک جج پر مشتمل تحقیقاتی ٹریبونل ان مقدمات کی تفتیش کے لیے قائم کیا گیا۔
خالی اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انتہائی مضحکہ خیز انداز میں بھٹو کو بھارتی شہری قرار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران آل انڈیا ریڈیو نے بھی جنگی پروپیگنڈا کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو پر بھارتی شہری ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس وقت ایوب حکومت نے اسے دشمن کا بے بنیاد پراپیگنڈہ قرار دے کر الزام مسترد کر دیا تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے سے نکال کر گلی محلے تک پہنچا دیا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

معروف صحافی اور بھٹو کے پریس سیکریٹری خالد حسن کے مطابق اس وقت کے خوفناک گورنر نواب آف کالا باغ نے بھٹو کو مشورہ دیا کہ ’وہ اپنے استعفی پر اٹھنے والے ردعمل کے کم ہونے تک چند مہینوں کے لیے یورپ چلے جائیں۔‘
انہی دنوں اخبار میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ بھٹو علاج کے لیے باہر جا رہے ہیں۔ اس خبر پر حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم ’چھوڑ کے نہ جا‘ لکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب آف کالا باغ کی بجائے حبیب جالب کا مشورہ قبول کیا۔
سنہ 2014 میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں نے حکومت کے خلاف ایک سو 26 دن کا طویل دھرنا اور احتجاج کیا تھا۔ یہ دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ نو نومبر 1968 سے 25 مارچ 1969 تک 132 دنوں تک مسلسل احتجاج ایوب حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔
ایوب خان کے دور حکومت کے تفصیلی جائزے اور تجزیے پر مبنی ہربرٹ فیلڈمین کی کتاب ’فرام کرائسس ٹو کرائسس پاکستان 1969-1962 کے مطابق 132 دنوں کے اس احتجاج کے دوران پورے ملک میں ہڑتال، احتجاج ،ہنگاموں، تشدد اور جلوسوں کا سلسلہ بغیر کسی وقفے کے پر روز چلتا رہا۔
یہاں تک کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان جاری ٹیسٹ کے تیسرے دن مظاہرین بینر لہراتے اور نعرے بلند کرتے اسٹیڈیم میں داخل ہوگئے۔ مجبورا تیسرے دن کھانے کے وقفے سے قبل میچ ختم کرنا پڑا۔
ایوب خالف تحریک کا سب سے متحرک مورچہ نوجوان طلباء کا احتجاج تھا۔ مشرقی پاکستان میں طلباء کی تحریک اتنی موثر تھی کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر طلباء کی اپیل پر اتنی موثر ہڑتال ہوئی کہ ممبران اسمبلی چوری چھپے اسمبلی ہال پہنچے۔ بقول ایس ایم ظفر اس دن لگتا تھا کہ ڈھاکہ پر ان طلبا کی حکومت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے طلباء نے کمزور احتجاج پر بطور طنز مغربی پاکستان چوڑیاں بھیجوائیں۔ آٹھ نومبر کو راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کا 17 سالہ طالب علم عبدالحمید پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تو مغربی پاکستان میں بھی طلبا احتجاج اور تشدد میں تیزی آ گئی۔

راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کا طالب علم عبدالحمید پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تو مغربی پاکستان میں بھی طلبا احتجاج اور تشدد میں تیزی آ گئی۔ (فوٹو: تھرو دی کرائسس)

ایوب خان کے قائم کردہ سیاسی نظام میں بنیادی جمہوریتوں کے منتخب نمائندے اور جنرل ایوب کو سیاسی جواز مہیا کرنے والی کنونشن مسلم لیگ دو اہم عنصر تصور کیے جاتے تھے۔ حکومت ہٹاؤ تحریک میں یہ دونوں ادارے بھی ایوب خان کے کام نہ آ سکے۔ غصے سے بھرے عوام نے بنیادی جمہوریتوں کے عہدیداروں کو دھمکیاں اور استعفی دینے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ لیاقت آباد کراچی میں علی کوثر نامی عہدے دار کو اپنے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
احتجاجی تحریک کے مقابلے میں سیاسی مضبوطی کا تاثر دینے کے لئے ایوب خان کو کنونشن مسلم لیگ کا دوبارہ صدر بنایا گیا۔ مگر چند دنوں بعد مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ میں پھوٹ پڑ گئی۔ حکومتی وزیر وحید الزماں خان نے ایوب خان سے مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر اسمبلی میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کر دیا۔
حکومت مخالف تحریک کا اثر زائل کرنے کے لیے ایوب خان نے اپنے جوابی بیانیہ میں یہ موقف اختیار کیا کہ ’پارلیمانی نظام کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے تمام پرانے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کے لیے حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘
’وہ اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے معاشی ترقی کا راستہ روکنے کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔‘
ہربرٹ فیلڈمین کے مطابق جب ایئر مارشل اصغر خان، جنرل اعظم خان، جسٹس محمد شریف، میجر جنرل جیلانی اور اے ڈی اظہر ایوب مخالف تحریک میں شامل ہوئے تو ایوب خان کا اعتراض بے معنی اور غلط ثابت ہوا کہ پرانے سیاستدان اقتدار چاہتے ہیں۔
یہ تمام لوگ اس سے قبل سیاسی سرگرمیوں اور عہدوں سے دور رہے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں احتجاجی تحریکوں میں سیاسی اور عوامی قوت سے ہی جان پڑتی ہے۔ مگر اس کے پہلو بہ پہلو بہت سارے غیر سیاسی اور غیر مرئی واقعات اور عوامل اس کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران اس طرح کے تین واقعات ایسے پیش آئے جن کی بظاہر سیاسی توضیح وتشریح ممکن نہیں۔
ایس ایم ظفر کی کتاب کے مطابق ایوب خان کابینہ کے اجلاسوں میں ہونے والی خفیہ گفتگو اور فیصلے وزرا کے گھروں کو پہنچنے سے پہلے ہی عام ہو چکے ہوتے۔
وہ ایوب خان کی بیماری کے دنوں کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فروری 1968 میں ان پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو وہ گھر تک محدود ہو گے۔ کابینہ کے کسی وزیر کو ان تک رسائی نہ تھی۔ صرف ملٹری سیکریٹری، ذاتی معالج اور سید فدا حسین شاہ مل سکتے تھے۔ کابینہ کے ممبران کی 18 دن بعد ان سے ملاقات ہوئی تو وہ کمزور اور تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
تیسرا واقعہ ایوب خان کے بااعتماد اور قریبی صحافی زیڈ اے سلہری کی طرف سے احتجاجی تحریک کے دوران دو فروری کو پاکستان ٹائمز میں What Went Wrong کے نام سے تنقیدی کالم کا شائع ہونا تھا۔ ایوبی پالیسیوں اور فیصلوں پر کھلے عام تنقید بدلتی ہواؤں کا پتہ دیتی تھی۔
کچھ حلقوں کی جانب سے ایوب کے دور کو شفافیت اور ترقی کے استعارے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ہربرٹ فیلڈمین کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پانچ سو روپے کا کرنسی نوٹ ایوب دور میں چھاپا گیا۔ اس سے قبل 100 روپے کا نوٹ سب سے بڑی مالیت کا نوٹ شمار ہوتا تھا۔ مصنف کے مطابق زیادہ مالیت کے نوٹ کا تعلق رشوت اور کمیشن خوری سے بھی جڑتا ہے۔
کراچی اور ڈھاکہ میں ’گھیراؤ‘ کے پے درپے واقعات نے حکومت کی انتظامی و سیاسی کمزوری نمایاں کر دی۔ جنگ ستمبر 1965 سے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ایمرجنسی نافذ تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے ایمرجنسی کے خاتمے کے لیے جیل میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ 14 فروری کو ایمرجنسی کے خاتمے نے ایوب حکومت کی رہی سہی طاقت بھی سلب کر لی۔ رہائی کے بعد بھٹو کی مقبولیت دن بدن بڑھنے لگی۔
اس سے قبل 11 نومبر کو ان کی گرفتاری کی وجوہات نے صحافیوں، دانشوروں اور وکلاء کو ان کی قابلیت اور قومی امور پر جرات مندانہ موقف کا گرویدہ بنا دیا۔ انہیں ورلڈ بینک کے صدر میک نمارا کے دورہ پاکستان کے دوران سیٹو اور سینٹو پر تنقید سے روکنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔

ایوب خان نے بنگالی اسپیکر عبدالجبار خان کو حکومت حوالے کرنے کی بجائے آرمی چیف کو اقتدار سونپ دیا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

حالات کا رخ دیکھتے ہوئے ایوب خان نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی۔21 فروری کو اپنی نشری تقریر میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروانے اور آنے والے صدارتی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر کے صورتحال کو سنبھالنے کی آخری کوشش کی۔
26 فروری سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا آغاز ہوا۔11 مارچ کو دوسرے اجلاس کے لیے شیخ مجیب الرحمان کو اگرتلہ سازش کیس سے رہا کر کے کانفرنس میں شریک کروایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات کے بجائے ایوب خان کے استعفے کے مطالبے پر قائم تھے۔ انہوں نے احتجاجا ایوب خان کی طرف سے ملنے والا ہلال پاکستان کا اعزاز بھی واپس کر دیا۔
ان حالات میں 25 مارچ کو ایوب خان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ایس ایم ظفر کے مطابق اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے انہوں نے نہ تو مسلم لیگ اور نہ ہی وفاقی کابینہ سے مشاورت کی۔ البتہ ذاتی طور پر خواجہ شہاب الدین، الطاف گوہر اور سید فدا حسین شاہ سے مشورہ ضرور کیا۔
1962 کے آئین کے مطابق صدر کی بیماری یا استعفیٰ کی صورت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنا تھا۔ اپنے دور حکومت میں بنگالیوں پر اعتماد نہ کرنے والے ایوب خان نے بنگالی اسپیکر عبدالجبار خان کو حکومت حوالے کرنے کی بجائے آرمی چیف کو اقتدار سونپ دیا۔ 
یحییٰ خان نے 25 مارچ کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور یکم اپریل کو صدر کا عہدہ سنبھال لیا ۔
4 اپریل 1969 کو تمام سرکاری دفاتر سے ایوب خان کی تصاویر ہٹا کر یحییٰ خان کی تصویر نصب کر دی گئی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ تبدیلی محض تصویر کی تبدیلی تھی۔

شیئر: