Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1977 کے عام انتخابات: دھاندلی کے الزامات نے جنہیں دھندلا دیا

لانگ مارچ کی ناکامی اور اپوزیشن کے جلسوں میں جنرل نیازی کی شرکت  سے پی این اے کی تحریک کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئیں۔ (فوٹو: ڈان)
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر  آج کل انتخابات میں دھاندلی، من پسند نتائج کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال اور الیکشن کمیشن کے کردار جیسے موضوعات زیر بحث ہیں۔
حالیہ دنوں میں ضمنی  الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور اب سینیٹ کے انتخابات میں غیرمتوقع نتائج سے جنم لینے والا سیاسی ارتعاش ہماری تاریخ میں پہلی بار نہیں ہے۔
44 برس قبل ہونے والے پاکستان کے دوسرے عام انتخابات  دھاندلی کے الزامات سے اس طرح آلودہ ہوئے کہ اس کے نتیجے میں جمہوریت پر نہ صرف آمریت کی دھند چھا گئی بلکہ پاکستان کی تاریخ کا دھارا بھی تبدیل ہوا۔
آئینی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی معیاد اگست 1978 تک تھی۔ مگر انہوں نے غیر معمولی سیاسی خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات جنوری 1977 کو دو ماہ کے بعد عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس وقت کی اپوزیشن دو مختلف کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی۔
ایک طرف آٹھ سیاسی جماعتوں پر مشتمل ’یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ جب کہ دوسری طرف ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی تحریک استقلال اور مولانا شاہ احمد  نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان تھی۔
قبل از وقت انتخابات کے اعلان نے منقسم حزب اختلاف کو یکجا کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’پاکستان نیشنل الائنس‘ کے نام سے وجود میں آیا۔
ہل کے انتخابی نشان اور سیاسی جماعتوں کی تعداد کے نمائندہ نو ستاروں والے پرچم کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد نے 23 جنوری کو نشتر پارک کراچی سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔

1970 کے الیکشن میں ان کے دو بڑے سیاسی حریف خان عبدالقیوم خان اور ممتاز دولتانہ اب حکومتی اور سفارتی عہدے لے کر حکومت کا حصہ بن گئے تھے (فوٹو: بشکریہ ڈان)

وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو دو حوالوں سے انتخابی کامیابی کے لیے پرامید تھے۔ ایک، حکومتی کارکردگی اور قومی منصوبوں کی تکمیل کے نتیجے میں موافق رائے عامہ ۔اور دوسرا، الیکٹیبلز کی بڑی تعداد کی پیپلز پارٹی میں شمولیت۔
1970 کے الیکشن میں ان کے دو بڑے سیاسی حریف خان عبدالقیوم خان اور ممتاز دولتانہ اب حکومتی اور سفارتی عہدے لے کر حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔ تیسرے بڑے سیاسی مخالف ایئرمارشل اصغر خان کو بھٹو نے خفیہ طریقوں سے اپوزیشن جماعتوں کا سربراہ بننے سے محروم کردیا تھا۔
قومی اسمبلی کے لئے 7 مارچ اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے دس مارچ کو پولنگ ہونا تھی۔ انتخابی مہم کا آغاز ہی بائیکاٹ اور بلامقابلہ منتخب ہونے جیسے منفی رجحانات سے ہوا۔
قومی اتحاد نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور اس کے لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے 19 اور صوبائی اسمبلیوں کے 60 امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔ ان میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور کچھ  وفاقی اور صوبائی وزرا شامل تھے۔
اپوزیشن اتحاد کو اپنے جلسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے جیت کا یقین ہو چلا۔ ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان اپنی کتاب ’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ میں اپنی انتخابی مہم کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ان کے جلسے کا جلوس اس قدر طویل تھا کہ کراچی ایئرپورٹ سے برنس روڈ  تک دس کلومیٹر کا فاصلہ جلوس نے دس گھنٹوں میں طے کیا۔

اصغر خان کے مطابق ایبٹ آباد سے ان کے بیلٹ پیپرز راولپنڈی لے جا کر انتخابی نتائج میں ترمیم کی گئی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

آٹھ مارچ کو انتخابی نتائج حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے حیران کن تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی 155 نشستوں  کے مقابلے میں قومی اتحاد صرف 36 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکا۔ اپوزیشن کے اہم  رہنما چودھری ظہور الہٰی، عبدالستار  نیازی، خورشید محمود قصوری، حامد  ناصر چٹھہ، خواجہ محمد صفدر، غوث علی شاہ اور میر علی احمد  تالپور شکست  سے دوچار ہوگئے۔
جبکہ اصغرخان، مفتی محمود، بیگم نسیم ولی خان، نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ اور 14 مارچ سے دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔
اصغر خان کے مطابق ایبٹ آباد سے ان کے بیلٹ پیپرز راولپنڈی لے جا کر انتخابی نتائج میں ترمیم کی گئی۔ اپوزیشن نے انتخابات کو کالعدم قرار دینے، وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سجاد  احمد خان کی برطرفی کا بھی مطالبہ کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے سپیشل سیکریٹری، 1977 کے الیکشن سیل کے انچارج اور انٹیلیجنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر راؤ عبدالرشید کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ’جو میں نے دیکھا‘ میں ان الیکشن اور دھاندلی کے الزامات پر تفصیل سے بات چیت کی گئی ہے۔
وہ منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے  بیوروکریسی پر غیر معمولی اعتماد  کو ان کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق انتخابات سے قبل پنجاب سے تمام ڈپٹی کمشنرز نے بھٹو صاحب کو رپورٹ پیش کی  کہ انہیں پنجاب سے 70 سے 75 نشستیں مل سکتی ہیں۔
جب پیپلز پارٹی نے پنجاب میں 108 سیٹیں جیت لیں تو ایک غلط اندازہ دلیل کے طور پر استعمال ہونے لگا اور دھاندلی کا الزام پختہ ہو گیا۔

انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف احتجاجی تحریک کے اثرات کم کرنے کے لئے  تحریک کے مرکزی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ (فوٹو: بشکریہ ڈاکٹر علام نبی قاضی) 

راؤ رشید انتخابی نتائج کے بعد بھٹو سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں کہتے ہیں ’میں نے رات 11 بجے کے قریب بھٹو  صاحب کو فون کیا اور مبارکباد دی۔ پھر رات چار بجے ان کا فون آگیا میں سو رہا تھا۔ کہنے لگے راؤ یہ کیسے ہوا ہے کوئی دھاندلی تو نہیں ہوئی؟ مجھ سے انھوں نے پوچھا کہ کسی نے گڑ بڑ تو نہیں کی کہ ہمیں اتنی سیٹیں مل گئی۔‘
ان کے نزدیک صوبائی وزرائے اعلی کے بلامقابلہ منتخب  ہونے کے غیردانشمندانہ طریقوں نے انتخابات کی ساکھ بری طرح مجروح کی۔
انتخابی نتائج کے خلاف قومی اتحاد احتجاجی تحریک کو منظم کر ہی رہا تھا کہ اس کے سیکٹری جنرل رفیق احمد باجوہ کی ذوالفقارعلی بھٹو سے خفیہ ملاقات کی خبریں سامنے آگئی۔ جس کا شدید رد عمل ہوا اور دو دن بعد انہیں اس عہدے سے ہٹا کر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو نیا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔
انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کے بڑھتے اثرات کم کرنے کے لئے اس کے اکثر مرکزی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔
نو اپریل کو پیپلز پارٹی پنجاب کے منتخب اراکین اسمبلی نے لاہور میں حلف اٹھانا تھا۔ اپوزیشن نے اسمبلی ہال کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کیا۔ شہر کی مختلف سمتوں سے نکلنے والے جلوسوں کے فیڈرل سکیورٹی فورس اور پولیس سے جھڑپ میں کہیں افراد جان سے گئے۔
مشتعل مظاہرین نے پیپلزپارٹی کے ایک لیڈر کا میکلورڈ روڈ پر واقع ہوٹل اور رتن سینما  نذرآتش کردیا۔
لاہور کی انتظامیہ نے جلوسوں میں خواتین کی بڑھتی تعداد کو روکنے کے لیے انوکھا طریقہ اپنایا۔ پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس سردار محمد چوہدری نے اپنی کتاب The Ultimate crime: Eye witness to power games میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

سردار محمد چوہدری کے مطابق اٹھارہ اکتوبر کو  ملک میں نئے انتخابات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ (فوٹو: بشکریہ ڈان)

ان کے مطابق پولیس نے احتجاجی خواتین سے نمٹنے کے لیے بازارحسن کی لڑکیوں کو عارضی طور پر پولیس میں بھرتی کرکے انہیں ’نتھ فورس‘ کا نام دیا۔ یہ فورس گالیوں اور تشدد سے احتجاجی خواتین کو ہراساں کرتی۔ یہاں تک کہ شرمناک طریقے سے ان کے کپڑے تک پھاڑ ڈالتی۔
موجودہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم نے مارچ کے مہینے میں لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اتفاق سے پی این اے نے بھی پیر پگاڑہ کی قیادت میں پورے ملک سے راولپنڈی تک لانگ مارچ کیا تھا۔
22 اپریل کو ذوالفقارعلی بھٹو نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا تھا۔ صورتحال کی اہمیت کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں اس لانگ مارچ کو غیر معمولی کوریج ملی۔ مگر یہ  مارچ لوگوں کی شرکت اور اثرات کے حوالے سے کامیاب ثابت نہ ہوا۔
ایئر مارشل اصغر خان اس کی ناکامی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں ’پیر پگاڑا جنہیں وزیراعظم ہاؤس تک اس جلوس کی قیادت کرنا تھی نہ جانے کیوں ایک رات پہلے انٹر کنٹینٹل ہوٹل منتقل ہو گئے ۔‘
اگلے دن اخبارات میں پیر پگاڑا کی بھٹو کے ساتھ ملاقات کی تصویریں شائع ہوئی جس میں پیرپگاڑا بھٹو کو دوستانہ انداز میں الوداع کہتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
اس لانگ مارچ کی ناکامی اور اپوزیشن کے جلسوں میں جنرل نیازی کی شرکت  سے پی این اے کی تحریک کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے فلور پر پی این اے کی تحریک کو غیر ملکی ایجنڈا قرار دیا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں امریکی وزیر خارجہ کا ایک خط لہراتے  ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تحریک امریکی آشیرباد سے ان کے خلاف ایک سازش ہے۔

دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی تحریک کے نتیجے میں ملک جمہوری عمل سے محروم ہو کر آنے والے آٹھ برسوں  تک قومی انتخابات سے ہی محروم رہا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

راؤ عبدالرشید نے بھی اپنے انٹرویو میں قومی اتحاد کے گرفتار کارکنوں کے گھروں میں بڑی تعداد میں راشن پہنچانے اور ملک میں ڈالر کی بڑھتی تعداد کو اپوزیشن کو حاصل ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ سے جوڑا ہے۔
دھاندلی کے خلاف طویل احتجاجی تحریک کے پہلو بہ پہلو مذاکرات کا سلسلہ  بھی جاری رہا۔ 28 جون کو اپوزیشن بھٹو کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی۔
جواب میں حکومت نے نئے انتخابات پر آمادگی ظاہر کی۔
سردار محمد چوہدری کے مطابق اٹھارہ اکتوبر کو  ملک میں نئے انتخابات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ مجوزہ انتخابات کی نگرانی  کے لیے دونوں فریقین کے نمائندوں پر مشتمل ’سپریم کونسل‘ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ایئر مارشل اصغر خان سپریم کونسل کو آئینی حیثیت دینے کے مطالبے پر ڈٹ گئے جس کی وجہ سے فریقین میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا جسے حل کرتے کرتے پانچ جولائی کی رات آگئی۔
یوں دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی تحریک کے نتیجے میں ملک جمہوری عمل سے محروم ہو کر آنے والے آٹھ برسوں  تک قومی انتخابات سے ہی محروم رہا۔

شیئر: