Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منفرد اسلُوب کی حامل ڈرامہ نگار حسینہ معین اب ہم میں نہیں رہیں

زمانہ طالب علمی سے لکھنے والی حسینہ معین جو عورتوں کو سکرین پر جہاں نازک چنچل شوخ دکھاتیں وہیں یہ بھی دکھاتیں کہ عورتیں بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی ہیں اور کسی بھی مشکل سے تنہا ہی نمٹ لیتی ہیں۔
حسینہ آج کل کے ڈراموں میں دکھائے جانے والے عورت کے کردار سے بالکل بھی مطمئن نہیں تھیں وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اب ڈرامہ نہیں لکھا جا رہا بلکہ ٹھیکے پہ کام ہو رہا ہے۔ حسینہ اتر پردیش کے شہر کان پور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور منتقل ہوا۔
ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ زمانہ طالب علمی میں شروع ہوا، وال پیپر میگزین کے لیے لکھا کرتی تھیں،ان کے علاوہ ان کی بڑی بہن کو بھی لکھنے کا شوق تھا لیکن شادی کے بعد وہ اس شوق کو جاری نہ رکھ سکیں لیکن حسینہ معین لکھتی رہیں۔
جب وہ کالج میں پڑھ رہی تھیں تو ریڈیو سے آغا ناصر نے کالج سے کچھ ڈرامے مانگے۔ ان کی اردو کی استاد نے حسینہ سے کہا کہ ’تم ڈرامہ لکھ کرانہیں بھیج دو۔‘ حسینہ نے اپنی استاد سے کہا کہ ’مجھے تو ڈرامہ لکھنا آتا ہی نہیں۔‘ اس پر استاد نے کہا کہ ’تم لکھ سکتی ہو، بس جو ذہن میں آتا ہے صفحے پہ اتارتی جاؤ۔‘
 یوں حسینہ نے ’پٹڑیاں‘ کے نام سے ریڈیو کے لیے ایک ڈرامہ تیار کر لیا جسے نہ صرف بے حد پذیرائی ملی بلکہ ریڈیو کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد آغا ناصر نے باقاعدہ ایک خط حسینہ کو بھیجا کہ تم سٹوڈیو نائن کے لیے لکھا کرو۔ اُن دنوں سٹوڈیو نائن کے لیے لکھنا کسی بھی نئے لکھنے والے کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا اور حسینہ آغا ناصر کے اس خط کو  کسی اعزاز سے کم نہ گردانتی تھیں۔

حسینہ کو ناول اور کتابوں سے کہانیاں لے کر ان کو سکرپٹ کی شکل دینا زیادہ پسند نہیں تھا (فوٹو: حسینہ معین فیس بک)

 تاریخ میں ماسٹرز کرنے والی حسینہ معین کو 1969 میں ٹی وی کے لیے لکھنے کی پیش کش ہوئی اور یہ پیش کش جی ایم کراچی کی طرف سے ہوئی۔ انہوں نے حسینہ معین سے کہا کہ ’ریڈیو ڈرامہ بھول بھلیاں کو ٹی وی کے لیے بنا دیں۔‘ ان کا لکھا ڈرامہ ہٹ ہوا اور اس کے بعد 1971 میں عید کے لیے کامیڈی پلے لکھا جس کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد حسینہ معین نے مڑ کر نہیں دیکھا۔
حسینہ کو ناول اور کتابوں سے کہانیاں لے کر ان کو سکرپٹ کی شکل دینا زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے اوریجنل کہانی کا تصور متعارف کروایا اور پہلی کوشش ڈرامہ سیریل کرن کہانی کی صورت میں کی جسے بہت پسند کیا گیا۔ انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں پرچھائیاں، دھوپ کنارے، انکل عرفی، تنہائیاں، پل دو پل، دھند،بندش، تیرے آجانے سے، شہ زوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، آن کہی، آہٹ، پڑوسی ،کسک،نیا رشتہ ،جانے انجانے ،آنسو،شاید کے بہار آجائے ،آئینہ ،چھوٹی سی کہانی ،میری بہن مایا و دیگر قابل ذکر ہیں۔
حسینہ معین قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی، اشفاق احمد اور کرشن چندر جیسے لکھاریوں کو پسند کرتی تھیں۔ انہوں نے فلم کہیں پیار نہ ہوجائے کی کہانی کے علاوہ کئی فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے۔
انڈین فلم ساز راج کپور کی فرمائش پر فلم حنا کے مکالمے بھی لکھے۔ راج کپور تین سال تک حسینہ معین کو مناتے رہے، آخر کار انہوں نے ہامی بھر ہی لی۔ فلم کی ریلیز کے عین موقع پر بابری مسجد کا واقعہ رونما ہوگیا جس کے بعد حسینہ نے راج کپور کے بیٹے رندھیر کپور کو ایک خط لکھا اور کہا کہ ’میرے ملک نے مجھے بہت عزت دی ہے لہٰذا میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی جو اس وقت مسلمانوں کے زخموں پر نمک کا کام کرے، آپ میرا نام نکال دیں۔ حسینہ معین اپنے دور کی واحد ڈرامہ رائٹر ہیں جن کا لکھا ہوا ڈرامہ دور درشن پر بھی چلا۔

 تاریخ میں ماسٹرز کرنے والی حسینہ معین کو 1969 میں ٹی وی کے لیے لکھنے کی پیش کش ہوئی (فوٹو: حسینہ معین فیس بک)

حسینہ معین آج کے ڈراموں میں عورت کے دکھائے جانے والے امیج پر نالاں تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ’عورت کو کمزور دکھایا جا رہا ہے، روتی پیٹتی مار کھاتی ہر بات پر قربانی دیتی عورت اس معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ ہماری عورت بہت بہادر ہے وہ ایسی تو کمزور نہیں جیسی ڈراموں میں دکھائی جا رہی ہے۔ حسینہ معین نے شادی نہیں کی تھی اس حوالے سے ان سے جب بھی سوال ہوتا تو وہ کہتی تھیں کہ ’کیریئر کی مصروفیت اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں میں اس قدر مگن رہی کہ کب شادی کا وقت ہاتھ سے نکل گیا پتا ہی نہیں چلا لیکن مجھے اس پر کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں۔
حسینہ خود تو چلی گئیں ہیں لیکن ان کے تحریر کردہ سبق آموز ڈرامے ہمیشہ ان کے پرستاروں کے دِلوں میں ان کی یاد کو زندہ رکھیں گے۔

شیئر: