رنگوں کی اس بہار میں ’کالا‘ رنگ نہیں ہوتا، شاید اسی لیے ماہرین اسے’رنگ‘ تسلیم نہیں کرتے (فوٹو: اے ایف پی)
رنگ،خوشبو، نکھار کا موسم
آگیا پھر بہار کا موسم
شعر کاشر کاشمیری کا ہے جس میں رنگ و خوش بو کی رعایت سے کہنے کو بہت کچھ ہے۔ بات رنگوں کی ہو تو تَخَیُّل کی الگنی پر اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیراہن لہرانے لگتے ہیں۔ رنگوں کی اس بہار میں ’کالا‘ رنگ نہیں ہوتا، شاید اسی لیے ماہرین اسے’رنگ‘ تسلیم نہیں کرتے۔
’کالا‘ سنسکرت کا لفظ ہے، جس کا فارسی مترادف ’سیاہ‘ ہے۔ اردو میں یہ دونوں الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض موقعوں پر بطورِ تاکید ’کالا سیاہ ‘ کی صورت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔
لفظ ’سیاہ‘ کی اصل ’سایہ‘ ہے۔ فارسی فرہنگ کے مطابق ’روشنی کے مقابل آنے والے غیر شفاف جسم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تاریکی سایہ کہلاتی ہے‘۔ یعنی سائے میں تاریکی، تیرگی اور سیاہی کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ اب اس مفہوم کے ساتھ لفظ ’سایہ‘ اور ’سیاہ‘ پر غور کریں دونوں میں ایک جیسے حروف کی یکساں تعداد اور مشترک مفہوم صاف دکھائی دے گا۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ فارسی کا ’سایہ‘ سنسکرت میں ’چھایا‘ ہے، پھر اسی ’چھایا‘ سے لفظ ’چھاؤں‘ اور ’پرچھائیں‘ ہے، جو کہنے کو ایک ہیں مگر ان کے محلِ استعمال میں فرق ہے، جب کہ ’سایہ‘ کا لفظ ’چھاؤں‘ اور ’پرچھائیں‘ ہر دو معنی میں برتا جاتا ہے۔
یوں لفظ چھاؤں، چھایا، سایہ اور سیاہ ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ’سایہ‘ کی مناسبت سے شاہنواز فاروقی کا شعر ملاحظہ کریں:
کتاب عشق میں سائے کا مطلب
در و دیوار کا سایہ نہیں ہے
لفظ ’سیاہ‘ سے ’سیاہی‘ بھی ہے، جس کے معنی و مترادفات میں کالک اور تاریکی شامل ہے، جب کہ خطا کاری اور گنہگاری کو کنایۃً اور بدبختی، کاجل، داغ، عیب اور روشنائی کو مجازاً ’سیاہی‘ کہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ سیاہ اور سیاہی پر مزید روشنی ڈالیں کچھ ذکر روشنائی کا ہوجائے۔ لفظ روشنائی کا تعلق روشن سے ہے۔
اصطلاح میں بینائی کے علاوہ لکھائی اور چھپائی میں استعمال ہونے والا محلول (Ink) ’روشنائی‘ کہلاتا ہے۔ قیاساً عرض ہے کہ Ink کو روشنائی اس لیے کہا گیا کہ اس کی بدولت پڑھنے والے پر لکھنے والے کے خیالات روشن ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر روشنائی (Ink) سیاہ ہوتی ہے اس لیے مجازاً ’سیاہی‘ کہلاتی ہیں۔
روشنائی اور سیاہی تک تو بات آسان ہے مگر مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب اخباری ’ہیڈنگ‘ کو’سرخی‘ کہا جاتا ہے، جب کہ وہ ’سرخ‘ نہیں ہوتی۔
واقعہ یہ ہے کہ بھلے وقتوں میں کتاب و رسالے کا سرنامہ یا عنوان (ہیڈنگ) نمایاں کرنے کی غرض سے شنگرفی (گہرے سرخ) رنگ میں لکھا جاتا تھا۔ یوں سرخ رنگت کی نسبت سے سرنامہ ’سرخی‘ کہلایا، اور ’ہیڈنگ‘ کا مترادف قرار پایا۔ یقین نہ آئے تو خالد صدیقی کا شعر ملاحظہ:
بے کار ہے، بے معنی ہے اخبار کی سرخی
لکھا ہے جو دیوار پہ وہ غور طلب ہے
ویسے غور طلب یہ بھی ہے کہ سنسکرت کا ’کالا‘ پوربی اور سندھی زبان میں ’کارا‘ اور ترکی میں ’قرہ‘ ہے۔ جب کہ عربی زبان میں ’کالا‘ کا مترادف لفظ ’اسود‘ ہے، اسی ’اسود‘ سے لفظ ’تسوید‘ ہے جس کے لفظی معنی ’کالا کرنا‘ اور مجازی معنی تحریر کے ہیں، پھر لفظ ’مسودہ‘ پر غور کریں، اس کے لفظی معنی ’کالا کیا گیا‘ اور مجازی معنی ’تحریر شدہ‘ ہے۔
’اسود‘ ہی سے لفظ ’سواد‘ بھی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ جہاں درختوں کی کثرت ہو وہاں سایہ بھی گہرا ہوتا ہے، غالباً اسی لیے عربی میں درختوں کا جھنڈ ’سواد‘ کہلاتا ہے۔
پھر جھنڈ سے کثرت کا مفہوم پیدا ہوا یوں لوگوں کی کثیر تعداد پر مشتمل جماعت کو ’سوادِ اعظم‘ پکارا گیا اور ’سواد‘ ہی کی نسبت سے ’سواد اعظم‘ کا سربراہ ’سید‘ کہلایا۔ چوں کہ قوم کا سردار بردبار، مہذب ، بزرگ اور محافظ قوم ہوتا ہے، یوں ان نسبتوں کی رعایت سے ’سید‘ کے معنی میں سردار، پیشوا، سرور، رہبر، مہتر، رئیس، بزرگ، خواجہ، آقا، مالک، خداوند اور شوہر شامل ہو گئے۔
’مُشک‘ ایک مشہور عالم خوش بو ہے، لفظ مُشکی اور مشکیں کو اسی مُشک سے نسبت ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نسبت ہمیشہ مشک کی خوش بو کی طرف نہیں ہوتی، بلکہ بعض صورتوں میں ’مشک‘ کی سیاہ رنگت کی طرف ہوتی ہے۔
مثلاً گھوڑا کالا ہو تو ’مُشکی‘ کہلاتا ہے، یوں اُس کا کالا رنگ خوبی میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی طرح کالی ٹوپی ’مشکیں کلاہ‘ ہے تو کالے بادل ’مشکیں پرند‘ جب کہ کالے بال ’مشکیں مُو‘ کہلاتے ہیں۔
عربی اور فارسی کے زیر اثر اردو میں کالی رنگت کو ’آبنوسی‘ بھی کہتے ہیں۔ ’آبنوس‘ ایک درخت کا نام ہے جس کی لکڑی انتہائی سیاہ اور نہایت مضبوط ہونے کے علاوہ غیر معمولی وزن کی وجہ سے پانی میں ڈوب جاتی ہے اس لیے بیش قیمت تصور کی جاتی ہے۔
چوبِ آبنوس کی سیاہ رنگت کی نسبت سے سیاہ فام شخص کو ’آبنوس کا کُندہ‘ کہتے ہیں۔ جب کہ سیاہ شب کو کنایۃً ’چتر آبنوس‘ اور ’شب آبنوسی‘ بھی پکارا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر ترکیب کو میرزا غالب کے ہاں ملاحظہ کریں:
بس کہ سودائے خیالِ زلفِ وحشت ناک ہے
تا دل شب آبنوسی شانہ آسا چاک ہے
اب جب کہ بہت سے صفحات سیاہ ہوچکے ہیں تو اس سلسلے کی آخری بات بھی گوارا کرلیں اور وہ یہ کہ فارسی میں ایک لفظ ’زنگ‘ ہے جو دیگر معنی کے ساتھ ’سیاہ‘ کے معنی میں بھی برتا جاتا ہے، اسی لیے چہرے پر نکل آنے والے غیر ضروری بالوں کے علاوہ ڈاڑھی کو بھی کنایۃً ’سپاہ زنگ‘ کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ افریقی ممالک کو ’ولایت زنگیاں‘ اور وہاں کے سیاہ فام باشندوں کو ’زنگ‘ اور ’زنگی‘ کہا جاتا ہے۔
یہی ’زنگ‘ عربی کے زیر اثر ’زنج‘ ہے، جسے افریقی جزیرے ’زنجبار‘ کے نام میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’زنجبار‘ کا لفظی مطلب ’کالوں کا دیس‘ ہے۔