گالوں میں پڑا گڑھا فارسی میں ’چاہ غب غب‘ کہلاتا ہے (فوٹو: فری پک)
وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں
گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اُس کے گالوں میں
یہ پُر شوخ شعر صاحب طرز شاعر جنابِ جون ایلیا کا ہے۔ گالوں میں پڑا گڑھا فارسی میں ’چاہ غب غب‘ کہلاتا ہے۔ اگر یہی گڑھا ٹھوڑی میں ہو تو ’چاہ ذقن‘ بن جاتا ہے۔
لفظ ’گڑھا‘ کی ایک صورت ’کھڈا‘ اور دوسری ’کھڈ‘ ہے، پھر اسی ’کھڈ‘ سے لفظ ’کَھڈّی‘ ہے، جو رومن الفاظ (alphabet) میں لکھے جانے پر کھاڈی (khaadi) ہوگیا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’کھڈ‘ سے ’کھڈّی‘ کا کیا تعلق ہے کہ ’کھڈّی‘ پر تو کپڑا بُنا جاتا ہے؟ عرض ہے کہ جدید مشینوں سے پہلے کپڑا لکڑی کی سادہ سی کَل (مشین) پر بُنا جاتا تھا۔ اس سادہ کَل کے پاس ایک ’کھڈ‘ ہوتا تھا جس میں جُلاہا پاؤں لٹکا کر بیٹھتا اور کپڑا بُنتا تھا۔ یوں اس ’کھڈ‘ کی نسبت سے اس سادہ کَل کو ’کَھڈی‘ کہا گیا پھر کپڑا بُننا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوگیا۔
کپڑا بُننے کا یہ ’گڑھا‘ فارسی میں ’کارگاہ‘ ہے، جس کی تخفیف کار گہ اور کرگہ ہے جب کہ ’کارگاہ‘ کی بگڑی صورت ’کرگھا اور کرگا‘ ہے۔’کرگھا‘ کو درج ذیل کہاوت میں دیکھ سکتے ہیں جو اُس وقت کہی جاتی جب کوئی اپنا کام چھوڑ چھاڑ فضول باتوں میں جی لگاتا ہو:
’کرگھا چھوٹ تماشے کو جائے، ناحق چوٹ جُلاہا کھائے‘
چوں کہ کارگاہ ’کام کی جگہ‘ ہے اس رعایت سے کارخانے سیمت کام کی ہرجگہ ’کارگاہ‘ کے معنی میں داخل ہے، جب کہ دنیا کو مجازاً ’کارگاہِ حیات، کار گاہِ عالم اور ’کارگاہِ فلک‘ کہا جاتا ہے۔ اب ’کارگاہ‘ کی رعایت سے ناصر کاظمی کا شعر ملاحظہ کریں:
ہم سے روشن ہے کار گاہِ سخن
نفسِ گل ہے مشکبو ہم سے
ہندوستان میں طبقاتی نظام کے زیرِاثر مختلف پیشے پیشہ وروں کی ذات بن گئے اور یوں سماج میں ان کا رُتبہ اُن کے پیشے کے مطابق طے گیا۔ نتیجتاً چمار، کمہار، پنہار اور گھسیار سمیت بہت سے چھوٹے موٹے کام کرنے والے ’نیچ ذات‘ میں شمار کیے گئے۔
مسلم ہندوستان میں جہاں دیگر شعبوں میں اصلاحات ہوئیں وہیں معاشرے کے ان کارآمد طبقات کی دلجُوئی کے لیے انہیں خوبصورت ناموں سے پکارا گیا۔ یوں کہتر (کمتر) نے مہتر(سردار)، ہلاک خور(خاکروب/جمعدار) نے حلال خور اور پنہار، (سقّہ/ماشکی) نے بہشتی (جنتی) نام پایا جب کہ جُلاہا پہلے پارچہ باف پھر نور باف اس کے بعد مومن اور آخر میں انصاری کہلایا۔ حفیظ میرٹھی سچ کہہ گئے ہیں:
اس سے ذہنوں کی بلندی کا پتا چلتا ہے
نام ذرّوں کے تم اپنے مہ و اختر رکھنا
کپڑے کی بُنت میں لمبائی اور چوڑائی میں ڈالا جانے والا دھاگا ’تانا بانا‘ کہلاتا ہے۔ اس میں لمبائی والا دھاگا ’تانا‘ جب کہ چوڑائی والا ’بانا‘ ہوتا ہے۔ یہ ’تانا بانا‘ فارسی میں ’تار و پود‘ کہلاتا ہے۔ اردو میں اس ’تانا بانا‘ کی رعایت سے کئی بمعنی محاورے اور کہاوتیں رائج ہیں۔ مثلاً پرانی باتیں دہرانا یا راز کھول دینا ’تانا بانا اُدھیڑنا‘ ہے تو نظام کا بگڑجانا ’تانا بانا ٹوٹنا‘۔ ایسے ہی لاحاصل کام اور بے فائدہ مشقت کو ’تانا بانا سُوت پرانا‘ کہتے ہیں جب کہ آوارہ گردی ’تانا بانا کرتے پِھرنا‘ کہلاتی ہے۔ اب ’تانا بانا‘ کی رعایت سے ابن انشا کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں یہ عشق ہے یا افسانا ہے
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے یہ کیسا تانا بانا ہے
’تانا بانا‘ کے ذکر سے سلطنت گولکنڈہ (دکن) کا آخری تاجدار ’تانا شاہ‘ یاد آگیا جس کی طبیعت کی رنگا رنگی اور نازک مزاجی نے ’تانا شاہی‘ نام پایا یوں ہر نازک مزاج ’تانا شاہ‘ کہلایا۔ اس کے علاوہ کہاوت ’تانا شاہ دیوانَہ جس کی چِٹّھی نہ پَروانہ‘ بھی اسی ’تانا شاہی‘ کی یادگار ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ محمد شاہ تغلق کا تھا جس نے اپنی تلوُّن مزاجی اور غیر معمولی متضاد فیصلوں کے سبب ’عجب المخلوقات‘ کا لقب پایا نتیجتاً ہر سنکی اور فاتر العقل شخص’تغلق‘ پکارا گیا۔
’تانا شاہی‘ کی طرح ایک ترکیب ’سِکّھا شاہی‘ بھی ہے جو پنجاب پر سکھ حکمرانی کے دوران ہوئے مظالم اور باہم لڑائیوں کی یادگار ہے۔ اسی لیے بد نظمی اور بے انصافی کو کنایۃً ’سِکّھا شاہی‘ کہتے ہیں۔
’سکھا شاہی‘ سے یاد آیا کہ سکھ مت میں پانچ علامتوں کو خاص اہمیت حاصل ہے، جو حرف کاف سے شروع ہونے کے سبب پانچ ’ککے یا ککار‘ کہلاتی ہیں۔ یہ پانچ ککے کِرپان (چھوٹی تلوار)،کچّھا (زیرجامہ)، کڑا، کنگھا اور کیس (بال) ہیں۔ آخر الذکر ’کیس‘ فارسی میں ’گیس‘ اور ’گیسو‘ کی صورت میں رائج ہے۔ اسے ’نظر حیدرآبادی‘ کے اس شعر میں بھی دیکھ سکتے ہیں:
اس چشم سیہ مست پہ گیسو ہیں پریشاں
مے خانے پہ گھنگھور گھٹا کھیل رہی ہے
اب واپس ’کیس‘ پر آتے ہیں جنہیں سکھ اہتمام سے رکھتے ہیں اور ان کی کانٹ چھانٹ نہیں کرتے۔ کانٹ چھانٹ اور تراش خراش کو عربی میں ’قَصُّ‘ کہتے ہیں۔ اب بال کاٹنے کی نسبت سے لفظ ’قَص‘ کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی حرف ’X‘ پر غور کریں، اس میں آپ کو قینچی کی صورت ’X‘ کے ساتھ ’قَص‘ کی آواز بھی صاف سنائی دے گی۔
اردو میں رائج قینچی اصلاً ترکی زبان سے متعلق ہے جس میں اسے غنہ کی آواز کے بغیر ’قیچی‘ بولا جاتا ہے۔ اس کی یہی صورت فارسی میں بھی رائج ہے۔ فارسی میں قیچی کو ’گاز‘ بھی کہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ ’گاز‘ کی اصل بھی ’قص‘ ہے جو صوتی تبدیلی کے نتیجے میں ’گاز‘ ہوگیا ہے۔ معروف لغت نویس’علی اکبر دھخدا‘ گاز کے ضمن میں لکھتے ہیں ’گاز کہ بدان آہن وسیم و زر تراشند‘ یعنی گاز وہ قینچی جو لوہا، چاندی اور سونا کاٹنے کے کام آتی ہے۔ اب اس بات کو