’نشتر‘ آلاتِ جراحی میں شامل ہے، جو فصد کھولنے اور زخم چیرنے کے کام آتا ہے۔ (فوٹو: سائنس فوٹو لائبریری)
دل پہ لگتے ہیں سیکڑوں نشتر
روح میں بے کلی سی پاتا ہوں
بے چینی و بے قراری کا اظہار و اعلان کرتا یہ شعر دلی کے آنجہانی شاعر’مہیش چندر نقش‘ کا ہے۔ شعر میں ہماری غرض وجہ اضطراب بننے والے ’نشتر‘ سے ہے۔
’نشتر‘ آلاتِ جراحی میں شامل ہے، جو فصد کھولنے اور زخم چیرنے کے کام آتا ہے۔ تاہم اس کے نوکیلے پن اور تیزی کے سبب چھری چاقو کو بھی مجازاً نشتر کہہ دیا جاتا ہے۔
فارسی ماہرین زبان کے مطابق ’نشتر‘ لفظ ’نیشتر‘ کا مخفف ہے جب کہ خود ’نیشتر‘ کی اصل ’نیش‘ یعنی ’ڈنک‘ ہے، اسے آپ ترکیب ’نیشِ عقرب‘ یعنی ’بچھو کا ڈنک‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ پھر مجازاً کسی بھی چیز کی نوک ’نیش‘ کہلاتی ہے۔
محمد حسین آزاد ’نیش‘ کے باب میں فارسی زبان دانوں کی وضاحت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ’نشتر‘ کی ایک اور وجہ تسمیہ کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ سنسکرت میں ’تیز‘ کو ’نِشِت‘ کہا جاتا ہے، یوں اگر ’تیزتر‘ کو’نِشِت تر‘ کہیں تو بات ’نشتر‘ تک پہنچ جاتی ہے۔
’تیز‘ کے ذکر سے یاد آیا کہ فارسی میں معمولی تبدیلی کے ساتھ ’تیز‘کی ایک صورت ’تیغ‘ بھی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’تیغ‘ تو تلوار کو کہتے ہیں۔عرض ہے کہ تلوار کو ’تیغ‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’تیز‘ ہوتی ہے۔ دوسروں لفظوں میں کہیں تو ’تیغ‘ تلوار کا صفاتی نام ہے جو اُسے اُس کی تیزی کی وجہ سے دیا گیا، بعد میں ’تیغ‘ کے مطلق معنی ہی ’تلوار‘ ہو گئے، یہی وجہ ہے کہ مرزا غالب نے اپنی ایک کتاب کو ’تیغِ تیز‘ کا نام دیا، تو میرانیس نے اسے اپنے کلام میں برتا ہے۔
چمکا اک آئینہ کہ ہوئی فوجِ شام دنگ
دکھلائے تیغ تیز نے بجلی کے رنگ ڈھنگ
چوں کہ بات ’ہتھیاروں‘ کی ہو چلی ہے تو لگے ہاتھوں کچھ ذکر لفظ ’ہتھیار‘ کا بھی ہو جائے۔ ’ہتھیار‘ دو لفظوں ’ہتھ‘ اور ’یار‘ سے مرکب ہے، یوں اس کے لفظی معنی ’ہاتھ کا یار‘ اور لغوی معنی ’اسلحہ‘ اور ’ اوزار‘ ہیں۔ سپاہی کے پاس اسلحہ اور کاریگر کے ہاتھ اوزار اس کا کام آسان بناتے اور بلا تکلف ’ہتھیار‘ کہلاتے ہیں۔ لفظی اور لغوی معنی کے بعد اب ہتھیار کو مجازی معنی میں ’خواجہ ساجد‘ کے شعر میں ملاحظہ کریں:
لب، رخسار، نگاہیں، تیور ہوں جن کے ہتھیار
ان کو کب درکار ہے خنجر، نیزے اور تلوار
تلوار کو فارسی میں ’شمشیر‘ کہتے ہیں، جس کے بارے میں پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’شمشیر‘ کے معنی ’شیر کا ناخون‘ ہے۔ ذرا دیر کو ’شمشیر‘ کی تیزی، خون ریزی اور خمیدگی پر غور کریں تو اسے شیر کے شَم (ناخون) جیسا پائیں گے۔
’خمیدگی‘ کے ذکر سے ’خم‘ یاد آگیا کہ اس کے معنی میں کجی، ٹیڑھ، ترچھا پن، جھکاؤ، گھماؤ، پیچ، بل، پھیر اور موڑ وغیرہ شامل ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’ہتھیار‘ کے درمیان ’خم‘ کا کیا بیان؟
عرض ہے کہ لفظ ’خَم‘ سے فقط ’خمیدہ‘ یا ’خمیدگی‘ ہی کا تعلق نہیں بلکہ ’کمان‘ اور ’کمند‘ بھی اسی سے متعلق ہیں۔ وہ یوں کہ ’کمان‘ اصل میں ’خمان‘ ہے اور اسے یہ نام اس کے ’خمدار‘ (مُڑے ہوئے) ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ یہی کچھ معاملہ ’کمند‘ کا ہے کہ یہ بھی اصلاً ’خمند‘ ہے۔
’کمند‘ پھندے والی مضبوط رسی ہوتی ہے جس کے ذریعے کسی کو باندھنے اور بلندی وغیرہ پر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ عام حالت میں یہ رسی خم دے کر (لپیٹ کر) رکھی جاتی ہے اس لیے ’خمند‘ کہلاتی ہے۔ چوں کہ حرف ’خ‘ اور ’ک‘ اکثر صورتوں میں باہم بدل جاتے ہیں جیسے سنسکرت کا ’کھر‘ فارسی میں ’خر‘ ہے، ایسے ہی لفظ ’خمان‘ اور ’خمند‘ ہیں جو بالترتیب ’کمان‘ اور’کمند‘ ہوگئے۔ اب ’کمند‘ کی رعایت سے میر تقی میر کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
اسیرِ زلف کرے، قیدی کمند کرے
پسند اس کی ہے وہ جس طرح پسند کرے
آبدار اور تیزدھار ہتھیاروں میں ’چاقو‘ بھی شامل ہے۔ لغت کے مطابق ’چاقو‘ ترکی زبان سے متعلق ہے جو فارسی اور اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔
فارسی کے بعض فرہنگ نویسوں نے ’چاقو‘ کو ’چاکو‘ لکھا ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ درست لکھا ہے کہ یہ اصلاً ’چاکو‘ ہی تھا جو ترکی زبان میں ’چاقو‘ ہوگیا۔ وہ یوں کہ فارسی میں کٹے پھٹے یا چِرے ہوئے کو ’چاک‘ کہتے ہیں، اسے آپ چاک گریبان یا ’چاکِ دل‘ وغیرہ کی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب اگر ’چاک‘ کٹا پھٹا ہے تو ’چاکو‘ اس کاٹنے اور پھاڑنے کا ذریعے ہے۔
اس بات کو اردو قاعدے کے مطابق آسان لفظوں میں سمجھیں۔ جیسے بدھ (عقل) سے بدھو (عقلمند)، شیر سے شیرو (بہادر) اور کالا سے کالو ہے ایسے ہی ’چاک‘ سے ’چاکو‘ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ’چاکو‘ فارسی لفظ تھا تو اسے ترکی زبان سے متعلق کیوں سمجھا گیا؟ عرض ہے کہ ترکی زبان کے اکثر الفاظ میں حرف ’چ‘ اور ’ق‘ کی تکرار پائی جاتی ہے مثلاً چقمق، قلیچ، چپقلش، قبچاق اور قینچی وغیرہ، چونکہ یہی دو لفظ ’چاقو‘ میں بھی تھے شاید اسی لیے اسے ترکی لفظ سمجھ لیا گیا۔
سکول کے دور میں لفظی تکرار پر مشتمل بہت سے اشعار سننے کو ملے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ ایک ہی لفظ مختلف معنی میں استعمال ہوتا اور ’تکرارِحسین‘ کا سماں بندھ دیتا۔ انہی اشعار میں سے ایک درج ذیل شعر بھی تھا:
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ
شعر کی صوتی ’کھڑکھڑا‘ اپنی جگہ، مگر ’کھڑک سنگھ‘ بطور نام ہضم نہ ہوا کہ بھلا ’کھڑک‘ بھی کوئی نام ہے۔ بہت بعد میں جانا کہ ’کھڑک‘ ہندی لفظ ہے اور اس کے معنی ’تلوار‘ کے ہیں، نیز یہ کہ اس ’کھڑک‘ کی اصل سنسکرت کا کھڑگ (खड्ग) ہے۔
رہی بات نام کی تو مشہور سکھ حکمران راجا رنجیت کے دوسرے بیٹے کا نام ’کھڑک سنگھ‘ تھا۔ اس کےعلاوہ بھی سکھ تاریخ میں کئی ایک ’کھڑک سنگھ‘ گزرے ہیں۔ سکھوں میں ’کھڑک سنگھ‘ کا مترادف نام ’شمشیر سنگھ‘ بھی خاصا معروف ہے۔