Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتوں کو شوکاز نوٹس جاری کر سکتی ہے؟

پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شہلا رضا نے شوکاز نوٹس کے فیصلے کو سخت  تنقید کا نشانہ بنایا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اتحاد میں شامل دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری اور مسلم لیگ نواز کے سینئیر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ صدرپی ڈی ایم کی منظوری سے پیپلزپارٹی اور اےاین پی کو شوکاز جاری کیے گئے۔

 

انہوں نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں پوچھا گیا ہےکہ آپ نے حکومتی بینچ سے لوگ لے کر اپوزیشن لیڈر کی کرسی حاصل کی ہے،  یہ پی ڈی ایم کے بیانیے کے خلاف ہے، اس حوالے سے فیصلہ پی ڈی ایم کا ہوگا، پیپلزپارٹی اور اے این پی کو جواب کے لیے 7 دن دیے گئے ہیں، جو جواب آئے گا اسے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

کیا اتحاد کی طرف سے پارٹیوں کو نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے؟

گو پاکستان پیپلز پارٹی نے اس شو کاز نوٹس پر باضابطہ طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم ٹوئٹر پر پارٹی کی سینیئر رہنما شہلا رضا نے اسے سخت  تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے لکھا کہ ’کوئی مجھے بتائے گا کہ شاہد خاقان عباسی کو کس نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت ایئر بلیو کی ملازم ہیں، اگر وہ ایسا نہیں سمجھتے تو کس حیثیت سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شو کاز نوٹس دے سکتے ہیں،پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد ہے جو بلاول کی کاوشوں سے وجود میں آیا، کیا پیپلز پارٹی کو شو کاز نوٹس دینا احسان فراموشی نہیں؟‘
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پی ڈی ایم میں شامل ایک اور جماعت کے رہنما کا کہنا تھا کہ جب ستمبر 2020 میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منعقدہ اے پی سی میں پی ڈی ایم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا تو یہ طے ہوا تھا کہ حکومت مخالف تحریک کے لیے استعفے دینے پڑے تو دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد میں ہی یہ بھی طے ہوا تھا کہ سینیٹ میں چئیرمین کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ہوں گے جبکہ اپوزیشن لیڈر کا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہوگا۔ پیپلز پارٹی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے اتحاد کے فیصلے کی خلاف ورزی پر شو کاز نوٹس جاری کرنا درست ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہیں نہیں طے ہوا تھا کہ یوسف رضا گیلانی چئیرمین کا الیکشن نہ جیتے تو انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا جائے گا۔ ’ایک اتحاد میں ساری جماعتوں کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے‘۔
پی ڈی ایم رہنما کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹس سے پہلے پی ڈی ایم کے چند رہنما اے این پی کی قیادت سے بھی ملے تو انہیں بتایا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا فیصلہ ذاتی دوستی کی بنا پر گیا ہے اور امید ہے کہ پارٹی پی ڈی ایم میں واپس آ جائے گی۔

 
پی ڈی ایم میں شامل جماعت کے رہنما کے مطابق ’کہیں نہیں طے ہوا تھا کہ یوسف رضا گیلانی چئیرمین کا الیکشن نہ جیتے تو انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا جائے گا۔‘
 (فوٹو: اے ایف پی)

نوٹس شاہد خاقان عباسی نے کیوں جاری کیا؟

پی ڈی ایم کے صدر جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن ہیں مگر شوکاز شاہد خاقان عباسی نے جاری کیا ہے۔ اس پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بطور پی ڈی ایم سیکرٹری جنرل انہوں نے نوٹس اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمن کی منظوری سے جاری کیا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر نہ تو مولانا فضل الرحمن خود اس نوٹس کے معاملے پر ابھی تک بولے ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یاد رہے کہ سوموار کو سینیٹ اجلاس میں بھی پی ڈی ایم کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ سینیٹ سیشن سے قبل اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس کے بجائے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے کمرے میں آزاد اپوزیشن کی جماعتوں کا مسلم لیگ ن کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔
اس اجلاس میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ سینیٹ میں آزاد اپوزیشن کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی۔
سینیٹ اجلاس کے دوران بھی مسلم لیگ نواز کے رہنما اعظم نذیر تارڑ نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں الگ اپوزیشن بینچز الاٹ کئے جائیں۔‘ انہوں نے کہا کہ  12 مارچ کو ایوان میں جو کچھ ہوا وہ سب کو پتا ہے۔  اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے پانچ تحفے بھجوائے گئے۔ ہم 27 لوگ الگ اپوزیشن کے طور پر کردار ادا کرتے رہیں گے۔
 

شیئر: