Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس ختم کرنے پر غور

پاکستان کی وفاقی حکومت ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے ان پر عائد درآمدی ٹیکس کے خاتمے پر غور کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس وقت درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر موجود 25 فیصد ڈیوٹی کو صفر کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد بڑھانا ہے۔
تاہم گاڑیوں کے درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس مکمل طور پر ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور حکومت کے اس اقدام کے امکانات کم ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں گاڑیاں درآمد کرنے والے زوہیر علی خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگر یہ ڈیوٹی بالکل ختم کر دی گئی تو ملک میں قائم آٹو انڈسٹری کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کا انقلاب برپا ہو جائے گا اور اس سے نہ صرف یہ کہ ماحولیات بہت بہتر ہو جائے گی بلکہ لوگوں کو کم پیسوں میں انتہائی جدید گاڑیاں میسر آئیں گی۔
لیکن زوہیر کا خیال ہے کہ حکومت یہ قدم اس لیے بھی نہیں اٹھا سکتی کیونکہ پاکستان کا در آمدی بل پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اگر الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی صفر کر دی گئی تو یہ مزید بڑھ جائے گا کیونکہ پھر ہر شخص باہر سے نئی گاڑی در آمد کرنے کی کوشش کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر ہے کہ حکومت پاکستان میں موجود گاڑیوں کے کارخانوں کو مراعات دے۔
’اگر یہاں قائم گاڑیوں کی فیکٹریوں کو مزید مراعات دے کر انہیں سستی الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔‘
فواد چوہدری کے مطابق حکومت اندرون ملک الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کے لیے پہلے ہی پر کشش سہولیات دے رہی ہے۔
فواد چوہدری نے بتایا کہ ’ہم نے پاکستان کے اندر (الیکٹرک گاڑیوں کی) مینوفیکچرنگ پر بہت مراعات دی ہیں۔ اور ایک فیصد ڈیوٹی ہے اگر آپ پاکستان کے اندر بنائیں گے تو اس کا سیلز ٹیکس بھی نہیں ہے، اور صرف ایک فیصد ڈیوٹی ہے جو کہ بہت پر کشش ہے۔‘

فواد چوہدری کے مطابق ’اس وقت تین پہیوں والی اور دو پہیوں والی گاڑیوں کی چار فیکٹریاں شروع ہو گئی ہیں۔‘ (فوٹو: انسپلیش)

ان کا کہنا تھا کہ ان مراعات کی وجہ سے پاکستان میں چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کی چار فیکٹریاں پہلے ہی لگ چکی ہیں، اور کچھ دیگر پائپ لائن میں ہیں۔
’اس وقت جو چھوٹی ہیں مثلا تین پہیوں والی اور دو پہیوں والی (گاڑیاں) ان کی چار فیکٹریاں شروع ہو گئی ہیں اور اس کے بعد بڑی بسز کی ایک کمپنی بڑی دلچسپی لے رہی ہے پاکستان کے اندر اور اس طرح سے ایک کاریں بنانے والے بھی آ چکے ہیں اور باقی بھی لوگ آ رہے ہیں۔‘
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہی لائنز پر پاکستان میں موبائل فون کی تیاری پر بھی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ جبکہ زرعی ڈرونز کی پیداوار بھی رواں سال سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
’ہم نے ڈرونز کی پوری اتھارٹی قائم کرلی ہے، اورانشااللہ اس سال پاکستان میں زرعی ڈرونز بننا شروع ہو جائیں گے۔ کیونکہ میری نظر میں اگلے تین سے پانچ سالوں میں ڈرونز زراعت کے آلات کو ٹیک اوور کر لیں گے۔‘
اردو نیوز کے ساتھ ایک حالیہ گفتگو کے دوران فواد چوہدری نے  ملک میں زیادہ سائنسدانوں کی پیداوار کے لیے سرکاری سکولوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ایک منصوبے سے بھی آگاہ کیا۔
’وہ سٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، میتھیمیٹکس) سکولز ہیں۔ جہاں ہم 450 سکولوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھس سکول بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اضلاع میں سرکاری سکولوں کو ایک نئی جہت ملے گی۔ اور وہاں پر بچے جو ہیں وہ ان جدید سکولوں میں پڑھ سکیں گے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے فنڈز کے اجرا میں وزارت خزانہ کی مدد درکار ہے۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ ملک کے قابل سائنس طلبا کو سکالرشپ دینے کے پروگرام پر بھی کام ہو رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

فواد چوہدری نے بتایا کہ ملک کے قابل سائنس طلبا کو سکالرشپ دینے کے پروگرام پر بھی کام ہو رہا ہے۔
’جو ہمارے سب تحصیلوں کے ٹاپرز ہیں سائنس میں، ان کو ہم میٹرک میں ٹاپ کرنے پر 10 ہزار روپے تک ماہانہ (وظیفہ) دیں اور بارہویں جماعت ٹاپ کرنے والوں کو ہم بارہ ہزار روپے دیں، اور پھر ٹاپرز کے ٹاپرز کو ہم ملک سے باہر بھیج دیں پڑھنے کے لیے۔ یا ملک کے اندر جو ہماری بہترین یونیورسٹیز ہیں ان میں ان کو سپانسر کریں۔ تا کہ پانچ سالوں میں ایک پینتیس، چالیس ہزار کی ہمارے پاس ایک تعداد آ جائے، سائنس پڑھنے والے بچے آگے جا کر نوبیل (انعام) کی ریس میں جا سکتے ہیں۔‘
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ سماجی سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس کا کہنا ہے کہ سرکاری سکولوں کی ایک مخصوص تعداد کو سائنس سکول بنانے کی تجویز اچھی ہے تاہم سائنس کی بہتر تعلیم کے لیے ابتدائی سطح پر سائنس سلیبس کو از سرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائنس کی تھیوری کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکولوں اور گھروں میں عملی تجربات کو بھی فروغ دینا چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیار تعلیم کی بہتری کے لیے طلبہ کو وظائف دینے کے ساتھ سپیشلائزڈ اساتذہ تیار کرنے اور ان کی جدید خطوط پر تربیت کرنے کے علاوہ تدریس کے شعبے کو ایک باعزت شعبہ بنانا بھی ضروری ہے۔

شیئر: