Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال، بنجرزمین،دلہن پیار کے پودے لگاتی ہے

 
یہی لڑکی کے منجھنے کا دور ہوتاہے ، باقی تمام زندگی یقینا وہ اپنی منواتی ہے، زندگی سمندر کی مانند ہے جس میں بہت سے اتار چڑھاو¿ آتے ہیں اور کئی طوفان ساحلوں سے آکر ٹکراتے ہیں
 
تسنیم امجد۔ریاض
 
٭اگر تم چاہو تو تمہیں طلاق دے دوں؟
٭٭ ہاں دے دو ، جب رہنا ہی نہیں ساتھ تو پکی علیحدگی ہی بھلی۔
وہ چیخی شعیب نے چاہا کہ اس کی خواہش پوری کردوں لیکن پھر لمحے بھر کو اسے امی کا خیال آگیا، دلہن ان کی پسند ہے ، ان کے علم میں سارا ماجرا آنا چاہئے ورنہ وہ ناراض ہونگی۔یہ سوچتے ہوئے وہ مہمان خانے میں چلا گیا۔ نائلہ اسی انتظار میں وہیں بیٹھی یہ سوچتی سوگئی کہ اس کا شوہر یقینا اس کی خواہش کی تکمیل کے لئے کچھ کررہا ہوگا۔ 
دن چڑھے ملازمہ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی، وہ ناشتہ لائی تھی۔ شعیب کہاں ہے ،وہ تو جی صبح ہی ناشتہ کرکے کام پر چلے گئے تھے۔ ابھی فون آیا تھاکہہ رہے تھے کہ آپ کو ناشتہ دے آو¿ں۔
لیکن ہمارا تو جھگڑا ہوا تھا، وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اور توس کو مکھن لگانے لگی۔ گرما گرم چائے کی سپ کے ساتھ ہی اسے اپنے رویے پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ نادم تھی اور شعیب کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی تھی لیکن آج وہ وقت سے پہلے گھر لوٹ آیا اور اسے تیار ہونے کو کہا کہ جلدی کرو بھوک لگی ہے ، آج کھانا باہر کھاتے ہیں ۔ وہ ہونقوں کی طرح اس کی طرف تکتی رہ گئی۔ 
زندگی سمندر کی مانند ہے جس میں بہت سے اتار چڑھاو¿ آتے ہیں اور کئی طوفان ساحلوں سے آکر ٹکراتے ہیں ۔اگر ہم سمندر کے ان پتھروں اور طوفانوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کے اس ساگر کو پارکرجائیں تو کامیاب زندگی ہماری منتظر ہوتی ہے اور اگر مقابلے کی سکت نہ رہے تو یقینا ڈوبنے کے سوا کوئی چارہ نہیںہوتا۔
شادی انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اسے عورت کا محافظ قرار دیا گیا ہے لیکن نہ جانے برداشت کی کمی کہئے یا کسی گلفام کی تلاش ، کہ شادی کے بعدچند ہی دنوں میں تو تکار شروع ہوجاتی ہے۔حالات کی گہرائی واضح کررہی ہے کہ مادی خواہشات اس کا بڑا سبب ہےں۔ یوں شادی نہ ہوگئی کوئی بزنس ہوگیا۔
شادی سے متعلق ترجیحات بدلنے میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے غیرحقیقی کرداروں میں آئیڈیل تلاش کئے جاتے ہیں جو محض سراب ہے ۔ اکثر شادیاں اپنے سماجی رتبے میں بہتری لانے کے لئے کی جانے لگی ہیں ۔ میرج بیورو سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ والدین خواہ لڑکے کے ہوں یا لڑکی کے ،اعلیٰ اخلاق، تعلیم ، ذہانت اور خاندان کی بجائے معاشی اسٹیٹس مانگتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مصنوعی امارت کا رنگ اترنے اور حقیقت سامنے آنے پر وہ سر پکڑکر رہ جاتے ہیں۔ فلموں اور ڈراموں کی سی زندگی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ 
شادی دوہستیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کا نام ہے ۔ خامیوں کو نظر اندازکرنا اور خوبیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ درحقیقت آج کا دور مادہ پروری کا ہے اور ارادی و غیرارادی طور پر خواہشیں اس کے گرد گھومتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج خون کے رشتوں میں بھی محبت کی گہرائی نہیں رہی۔طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب گھروں میں لڑکیاں بیٹھی عمر گزاررہی ہیں ۔ لڑکوں کی فرمائشیں پوری کرنا اب ان کے بس میں نہیں۔ ہر لڑکی کا خواب دولتمند دولہا ہے اس کے لئے وہ عمروں اور شکلوں کی نظر انداز کررہی ہیں، بے جوڑ شادیاں عام ہوگئی ہیں ۔ 
حال ہی میں ہمیں ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شادی پانچ ستارہ ہوٹل میں تھی۔ لڑکی والے بہت خوش تھے کہ لڑکے والے فلاں فلاں ملک میں کاروبار کرتے ہیں ۔ آخر لڑکا اور لڑکی اسٹیج پر لائے گئے اور ہم قریب بیٹھی خواتین سے پوچھنے لگے کہ لڑکا کدھر ہے؟ آخر پول کھلا کہ جن صاحب کو ہم باپ سمجھ رہے تھے ،وہی لڑکا ہے۔ اب بتائیے کہ ہم کیا کہتے ؟
ایک خاتون بولیں کہ دولہا بہت مالدار شخص ہے ، لڑکی کے نام دبئی میں بنگلہ دیا ہے۔ ان کی تو پانچوںانگلیاں گھی میں ہیں۔ ہماری نانی جان لنگوروں سے پریوں کی شادیوں کے قصے ہمیں سناتی تھیں۔ وہ سب قصے ہمیں یاد آنے لگے ۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ لڑکی جوائنٹ یعنی مشترکہ فیملی میں نہیں رہے گی جبکہ ایسی لڑکیوں کی مائیں مشترکہ خاندان میں ہی زندگی بھر رہیں۔ یہ لڑکیوں کو بھی اپنے دکھ سنا سنا کر اس مزاج کا بنا ڈالتی ہیں کہ وہ بھی یہی چاہتی ہیں کہ تنہا لڑکا ہواور کوئی نہ ہو۔ ایسے مزاجوں کی بناوٹ میں والدین قصور وار ہوتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دین اسلام سے دوری کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ 
عملی زندگی کی شروعات کے حوالے سے ہماری بات چیت کچھ خواتین سے ہوئی، کچھ کے تجربات مایوس کن اور کچھ کے خوش کن تھے،رازداری کے لئے یہاں تمام نام فرضی ہیں۔
٭٭محترمہ فوزیہ کا کہنا ہے کہ والدین نے شادی بڑے گھر میں کی۔ بنگلہ ، نوکر چاکر ، چار، چار گاڑیاں سبھی بہت خوش تھے ۔ سبھی کزن اور سہیلیاں رشک کر رہی تھیں۔ سسرال جاکر مجھے چند دن تو اپنے نصیب پر یقین نہ آیا کہ اس طرح شہزادیوں کا سا سلوک ہوگا لیکن جلد ہی سب کے اکھڑے اکھڑے لہجے سامنے آئے تو حیرانگی ہوئی۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ مجھے اور میرے شوہر کو گاو¿ں والے گھر میں رہنا ہے ۔ خیر وہاں جانے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ سانس لینا بھی دوبھر ہے ۔ کسی سے بھی ملنے پر پابندی کے علاوہ گاو¿ں کا گھر صرف دو کمروں کا تھا جس میں خود ہی سب کام کرنے تھے۔ چند روزکے بعد والدین بھی آگئے کہ بیٹا ہمارا دل تو شہر میں نہیں لگتا ۔ آخر اب پردہ چاک ہوچکا ہے کہ شہر کی شان و شوکت تو درحقیقت ایک دوست کی تھی جو 6ماہ کے لئے اپنا ”محل“ ان کو سونپ کر ملک سے باہر گیا تھا لیکن وہ وقت سے پہلے لوٹ آیا، اس طرح ان کو جلد ہی اپنے اصلی روپ میں لوٹنا پڑا۔ اس جھوٹ اور دھوکے نے میری زندگی کو روگ لگادیا ۔میں نے حالات سے سمجھوتہ تو کرلیا لیکن جو زیادتی ہوئی وہ ناسور کی طرح روح کو کھا رہی ہے ۔ 
٭٭مسز راحیلہ کا کہنا ہے کہ پہلے تو بارات بہت تاخیر سے آئی، ابا جان نے فوجی انداز میں زندگی گزاری تھی۔ اس لئے بڑبڑاتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ رخصتی پربھی ماحول میں ٹینشن تھی، ولیمے پر جٹھانی ہمیں پارلر چھوڑ کر خود کام کاج کا کہہ کر چلی گئیں۔ رات کے 10 بج گئے، ہال میں شور اٹھا کہ دلہن کو جلدی لائیں تو پھر میرا خیال آیا۔ اسٹیج پر میں گھبرائی ہوئی پہنچی تو برادری والوں کی باتیں الگ سننے کو ملیں۔ بس اس طرح غیرذمہ دارانہ رویے دیکھ دیکھ کر جان کڑھتی ہے کیونکہ ہم نے یہ سب نہیںدیکھا تھا۔ 
بزرگوں کا کہنا ہے کہ سسرال میں دل جیتنے کے لئے لاتعداد جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ شادی ایک امتحان ہے اس کی تیاری والدین کو کرانی چاہئے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ اب وہ ماحول نہیں رہا۔ سسرال کے مزاج بدل چکے ہیںلیکن کسی نہ کسی انداز میں سسرالیت موجود ہے۔ ایک دلہن کے لئے سارا خاندان نہیں بدلتا، اسے خود ان کے مزاجوں کو پرکھنا پڑتاہے ۔
سچ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی شروعات اتنی سہل نہیں جتنی افسانوی سوچ اسے بنادیتی ہے ۔ سسرال کسی بھی لڑکی کے سفر حیات کا آخری اسٹیشن ہے جس کے پرائے پن کو اپنائیت میں بدلنے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔سسرال ایک ایسی بے آب و گیا بنجر زمین ہے جہاں آنے والی دلہن کوپیار محبت کے پودے لگانے پڑتے ہیں ۔ یہی لڑکی کے منجھنے کا دور ہے پھر باقی کی تمام زندگی یقینا وہ اپنی منواتی ہے اس لئے اس رشتے کو ظاہری شان و شوکت کی بنیاد پر استوار نہیں کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: