Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جگتو فرنٹ سے پی ڈی ایم: پاکستان کے ٹوٹتے بنتے اتحاد

جگتو فرنٹ کے نام سے ملک کا پہلا سیاسی اتحاد 1954 میں بنا (فوٹو: ڈھاکہ ٹریبیون)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے قیام کے سات ماہ بعد ہی زوال اور انتشار سے دوچار ہو گئی ہے۔ اتحاد کی دو بڑی جماعتوں میں اعتماد کے بحران نے پی ڈی ایم کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں بڑھتی کشمکش اور دوریاں اتحاد کے مستقبل کا واضح منظر نامہ پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بننے والے احتجاجی اور سیاسی اتحاد اپنے مقاصد میں مکمل یا جزوی کامیابیوں کے بعد اندرونی خلفشار کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
جمہوری ادوار میں ان کا مقصد انتخابی کامیابی اور آمریت میں سویلین حکومت کا قیام اور آئین کی بحالی کا مطالبہ رہا ہے۔
ماضی اور حال کی ان تحریکوں کے تجزیے کے دو پہلو ہیں، ایک نظریاتی ساخت کے لحاظ سے مختلف الخیال قوتوں کا اتحاد اور اس کا انجام، دوسرا انتخابی اور سیاسی حریفوں کی حالات کے جبر کے تحت مشترکہ جدوجہد کے نتائج و اثرات۔
پاکستان کی تاریخ کا پہلا اتحاد مشرقی پاکستان میں بننے والا انتخابی اتحاد تھا۔ 1954 میں کرشک سرامک پارٹی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف متحدہ محاذ یا ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الائنس بنایا تھا۔
ان جماعتوں کے قائدین کے ذاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود الیکشن میں 309 نشستوں میں سے 223 سیٹیں اس اتحاد نے جیت لیں۔
مسلم لیگ کے صرف دس امیدوار کامیابی حاصل کر سکے۔ اس کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ نورالامین ایک عام طالب علم سے شکست کھا گئے۔

ضیا الحق کے خلاف بننے والے اتحاد ’تحریک بحالی جمہوریت‘ میں نوابزادہ نصراللہ بھی شامل تھے (فوٹو: ٹوڈے ان ہسٹری)

مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ بنے مگر صرف تین ماہ بعد ہی ان پر غداری کے الزامات لگا کر صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ جگتو فرنٹ میں اقتدار کی اندرونی کشمکش اس کے زوال کا باعث بنی۔ گورنر راج کے خاتمے کے بعد عوامی لیگ نے فضل الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ 1958 تک ان تین جماعتوں نے ایک دوسرے کے وزرائے اعلیٰ کو چین سے حکومت نہ کرنے دی۔
1965 کے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا اتحاد ہماری سیاسی تاریخ کا دوسرا انتخابی اتحاد تھا۔
16 ستمبر 1964 کو کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، نظام اسلام پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر پارٹیوں نے فاطمہ جناح کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا۔ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کی صدارتی امیدوار کو الیکشن میں کامیابی نہ مل سکی۔

21 مارچ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں قدآور سیاسی شخصیات خواجہ ناظم الدین، ممتاز دولتانہ، چوہدری محمد علی، مولانا مودودی، مولانا بھاشانی اور ولی خان کا انتخابی اشتراک اور اتحاد بھی ایوب خان کی کنونشن لیگ کا مقابلہ نہ کر سکا۔ حکومتی جماعت کی 126 نشستوں کے مقابلے میں متحدہ اتحاد کو صرف 13 سیٹیں مل سکیں۔
اس شکست کی دیگر دیگر وجوہات تھیں وہیں ان جماعتوں کے اندر نظریاتی، سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی ترجیح بھی اہم عنصر تھے۔ ان غیرمتوقع اور مایوس کن نتائج کے بعد اپوزیشن کے اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔
پاکستان نیشنل الائنس تیسرا انتخابی اتحاد تھا جو بھٹو حکومت کے خلاف قائم ہوا۔ 1977 کے الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات اور قومی اتحاد کی تحریک نے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ پی این اے میں بھی سیاسی اور مذہبی حریف قوتیں شامل تھیں۔

پاکستان نیشنل الائنس ملک کا تیسرا انتخابی اتحاد تھا جو بھٹو حکومت کے خلاف قائم ہوا (فوٹو: میل ٹوڈے)

جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان مذہبی سیاست کی علمبردار تھیں۔ دوسری طرف نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک استقلال کا طرز سیاست سیکولر تھا۔
قومی اتحاد میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب اس کے سیکریٹری جنرل رفیق باجوہ کی ذوالفقار علی بھٹو سے خفیہ ملاقات کی خبر منظرعام پر آئی۔ ان کی پارٹی جمیعت علمائے پاکستان نے اپنی مذہبی حریف جماعت اسلامی پر اس معاملے کو غیرضروری طور پر اچھالنے کا الزام لگایا۔
ضیا الحق نے پانچ جولائی 1978 کو کابینہ بنانے کا اعلان کیا تو پی این اے میں حکومت میں شمولیت پر اختلافات اور گہرے ہو گئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پی این اے سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے حکومت میں شمولیت اختیار کرلی تو قومی اتحاد کی باقی جماعتوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔
16 اپریل 1979 کو قومی اتحاد کے وزرا کو کابینہ سے نکال دیا گیا تو پگاڑا لیگ اور جمعیت علمائے پاکستان نے آپس میں اشتراک کر لیا۔ سب سے زیادہ خسارے میں جماعت اسلامی تھی جسے سابق پی این اے کے دونوں دھڑے قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آمریت کے خلاف بننے والا پہلا اتحاد 1962 میں ’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے نام سے قائم ہوا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کی وجہ سے اس اتحاد میں اس دور کی نمایاں سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ اس میں اکثریت مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں اور جماعتوں کی تھی۔

2006 میں پرویز مشرف حکومت کے خلاف کئی سیاسی جماعتوں پر مشمتل اے پی ڈی ایم نامی اتحاد قائم ہوا (فوٹو: پولیٹکل ہسٹری)

این ڈی ایف کے قیام میں مولانا مودودی اور ملک غلام جیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے ’ایبڈو‘ کا شکار سیاست دانوں کو اس اتحاد سے دور کرنے کے لیے انہیں قانونی رعایتوں کا لالچ دیا تو مغربی پاکستان کے بہت سے لیڈروں نے اس اتحاد سے دوری اختیار کر کے اپنے آپ کو قانونی نااہلی سے بچایا۔
1967 میں بننے والی ’نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ‘ ماضی کے این ڈی ایف کا دوسرا جنم تھا۔ ایوب حکومت کے خلاف پارلیمانی نظام کے قیام اور صوبائی خود مختاری کے مطالبے پر بننے والی این ڈی ایم میں اس وقت کی اہم سیاسی قوتیں شامل تھیں۔
مشرقی پاکستان کی سیاسی قوتیں ون یونٹ کے خاتمے پر متفق تھیں جبکہ مغربی پاکستان کی جماعتوں میں اس مطالبے پر اندرونی اختلافات تھے، اسی وجہ سے این ڈی ایم ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی اندرونی کشمکش سے دوچار رہی۔ اس کی نسبت بھٹو کی نومولود پیپلزپارٹی نے عوامی جذبات کا بہتر انداز میں استعمال کیا۔ 1970 کے انتخابات میں این ڈی ایم کی جماعتیں بجائے کسی انتخابی اتحاد کے، ایک دوسرے کے خلاف میدان میں نکل آئیں۔
چھ فروری 1981 کو ضیا الحق کی آمریت کے خلاف قائم ہونے والا اتحاد جسے میڈیا نے ’تحریک بحالی جمہوریت‘ کا نام دیا، اس حوالے سے منفرد تھا کہ لگاتار چار سال اس کی سرگرمیاں جاری رہیں۔
مارشل لا کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہونے والے اس اتحاد میں چھوٹی بڑی نو جماعتیں شامل تھیں۔ سیاسی لحاظ سے اس کی انفرادیت ماضی کے دو کٹر سیاسی حریفوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا تھا۔

ایوب خان کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ ولی خان بھی رہے (فوٹو: لفظونہ)

پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال نے ماضی کی تلخیوں کے باوجود مشترکہ سیاسی جدوجہد کے معاہدے پر دستخط کیے۔
تحریک بحالی جمہوریت کی دیگر جماعتوں میں کونسل مسلم لیگ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، قومی محاذ آزادی، مزدور کسان پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھی۔ اختلافات سے بچنے کے لیے اتحاد کی صدارت ہر ماہ تبدیل ہوتی اور تمام جماعتوں کو باری باری  اس کی قیادت کا موقع ملتا۔
ایم آر ڈی میں پہلی دراڑ مسلم کانفرنس کے سردارعبدالقیوم کی اتحاد سےعلیٰحدگی تھی۔ وہ مارچ کے مہینے کے لیے اس کے چیئرمین تھے۔ انہی دنوں الذوالفقار کی جانب سے پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا واقعہ پیش آیا۔
اس کو جواز بناتے ہوئے 21 مارچ 1981 کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سردار عبدالقیوم نے بحیثیت چیئرمین اتحاد میں شامل جماعتوں کو اپنی تمام سرگرمیاں معطل کرنے کا کہا، ساتھ ہی پیپلز پارٹی کو اتحاد سے نکالنے کا مطالبہ کیا مگر اتحاد کی دیگر جماعتوں نے ان کے مطالبے کو مسترد کر دیا تو انہوں نے خود ہی علیٰحدگی میں عافیت جانی۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اپنی کتاب ’مائی پولیٹکل سٹرگل‘ میں ان کے اس اقدام کو حکومتی ایما پر 23 مارچ کو ہونے والے احتجاج کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔

1981 میں ضیا الحق کی حکومت کے خلاف بننے والا اتحاد مسلسل چھ سال تک فعال رہا (فوٹو: ٹریول ٹوڈے)

ملکی تاریخ کی اس طویل تحریک میں سب سے زیادہ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اصغر خان 16 سو تین دنوں تک اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمان طویل عرصے تک پس دیوار زنداں رہے۔
پی ڈی ایم کے موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی جماعت کے ایک دھڑے کے قائد منتخب ہوئے۔ ایم آر ڈی میں شمولیت کے بعد چوبیس فروری کو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے چار دن بعد 28 فروری کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی ایک خبر نے ان کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ اصغر خان کے مطابق مولانا سے منسوب یہ بیان نشر ہوا کہ انہوں نے نو جماعتوں کے اتحاد کی دستاویز پر ذاتی حیثیت میں دستخط کیے ہیں نہ کہ جے یو آئی کے نمائندے کے طور پر۔
تحریک بحالی جمہوریت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی پنجاب کابینہ میں شمولیت اہم واقعہ تھا۔ وہ اس وقت تحریک استقلال کا حصہ تھے۔
اصغر خان لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے 28 مارچ 1981 کو ان کی اہلیہ آمنہ سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ پنجاب کابینہ میں شمولیت کی پیشکش پر نہ نہیں کہہ سکتے۔ اصغر خان کے مطابق ان کی اہلیہ نے انہیں یہ ’غلطی‘ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

مشرف حکومت کے خلاف دسمبر 2000 میں ماضی کے سیاسی دشمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اے آر ڈی قائم کی (فوٹو: اے ایف پی)

دوسرا واقعہ بے نظیر بھٹو کا طویل نظر بندی کے بعد علاج کے لیے بیرون ملک جانا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیٰحدگی آج کل سیاسی مباحث کا موضوع ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران 11 اگست 1983 کو حاجی غلام احمد بلور نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (اب عوامی نیشنل پارٹی ) کے جنرل سیکریٹری اور ایم آر ڈی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفی دے دیا تو اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہونے لگے۔
اصغر خان کے مطابق انہوں نے اس کی وجہ مرحوم باچا خان کے اس بیان کو قرار دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’پیپلزپارٹی اندرونی طور پر فوجی حکومت سے رابطے میں ہے۔‘
ایم آر ڈی میں تحریک استقلال اور پیپلز پارٹی میں بہت سارے امور پر اختلافات تھے۔ پیپلز پارٹی اس اتحاد کو آنے والے دنوں میں انتخابی اتحاد میں بدلنے کی خواہش مند تھی جب کہ اصغر خان اس کے برعکس اپنی ذات اور جماعت کو ضیا الحق اور مارشل لا کا متبادل سمجھتے تھے اور انہیں انتخابی اتحاد میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ایک موقع پر سیاسی سنسنی میں اس وقت اضافہ ہوا جب تحریک استقلال کے سیکریٹری جنرل مشیر پیش امام سے منسوب ایک خبر سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک استقلال نے ایم آر ڈی سے اپنا راستہ الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تمام اختلافات اور شکوک و شبہات کے باوجود یہ اتحاد 1985 کے انتخابات کے بعد تک قائم رہا اور آہستہ آہستہ غیر موثر ہو گیا۔

اے آر ڈی نواز شریف کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد غیر فعال ہو گئی (فوٹو: اے ایف پی)

مشرف کی آمریت کے خلاف دسمبر 2000 میں ماضی کے سیاسی دشمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اے آر ڈی قائم کی، جو بعدازاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے غیر فعال ہوگئی۔ 2006 میں دونوں جماعتوں کی طرف سے میثاق جمہوریت پر اتفاق اسی اتحاد کا تسلسل تھا۔ آنے والے دنوں میں دیگر جماعتوں کی شمولیت کے بعد آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ نامی اتحاد تشکیل پایا۔
نومبر 2007 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو اے آر ڈی اور اے پی ڈی ایم اے کی جماعتوں میں انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے اختلاف رائے سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے جب کہ مسلم لیگ ن نے ابتدا میں اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
25 نومبر کو نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اے این پی اور جے یو آئی بھی ہم رکاب ہوگئیں جس کے بعد اے پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ بعدازاں محمود خان اچکزئی کی قیادت میں قوم پرست جماعتوں نے ’پونم‘ کے نام سے ایک اتحاد قائم کر لیا۔
ماضی کے اتحادوں اور تحریکوں اور آج کے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں اگرچہ زمان و مکاں کا بنیادی فرق اپنی جگہ موجود ہے مگر بہت سارے سیاسی واقعات، اختلافات اور مفادات یہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں تاریخ کے علاوہ سیاست بھی اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

شیئر: