Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

53 برس قبل کی پی ڈی ایم اور آج کا اتحاد مختلف کیسے؟

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی دس جماعتیں میدان میں نکلی ہیں۔ یہی صورت حال ایوب خان کو درپیش تھی (فوٹو: اے ایف پی)
معلوم نہیں یہ محض حسن اتفاق ہے کہ حسن اہتمام کہ موجودہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ہی 53 برس قبل اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا تھا۔
اللہ جانے 20 ستمبر 2020 کو پی ڈی ایم کا نام اختیار کرتے وقت اس کے رہنماؤں کے ذہن میں یکم مئی 1967 کو بننے والی پی ٹی ایم کے ظہور، طریقہ احتجاج اور انجام کے بارے میں معلومات تھیں کہ نہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف دونوں احتجاجی اتحادوں میں نصف صدی سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ایک تاریخ کا حصہ بن چکا جب کہ دوسرا اپنے حصے کی تاریخ لکھنے جا رہا ہے۔

 

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے قیام کے دو برسوں بعد حزب اختلاف کی دس جماعتی سیاسی اصلاحات کا گیارہ نکاتی ایجنڈا لے کر میدان میں نکلی ہیں۔ یہی صورت حال سابق صدر ایوب خان کو درپیش تھی۔
دسمبر 1964 کے صدارتی الیکشن دھاندلی  کے الزامات سے بھرے ہوئے تھے۔1967 کے اوائل میں کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نفاذ اسلام پارٹی، عوامی لیگ اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ نے ایوب حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنایا۔
 اس کا 8 نکاتی منشور سیاسی اصلاحات اور ملک کے دونوں صوبوں کے درمیان سیاسی و مالیاتی برابری کے مطالبات پر مشتمل تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اس اتحاد کی سربراہی سونپی گئی۔
پی ڈی ایم کے موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود اس دور کی انتخابی و قومی سیاست میں نمایاں تھے۔ وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں بنے۔ پی ڈی ایم کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے بدترین مخالف ہونے کے باوجود اس اتحاد سے باہر تھے ۔ جماعت اسلامی پاکستان آج اپوزیشن اتحاد سے باہر رہ کر اپنی تحریک آپ چلانے پر مصر ہے۔وہ ماضی کی پی ڈی ایم کا پُرجوش حصہ تھی۔

ایوب خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو آگ سے کھیلنے والا قرار دیا تھا (فوٹو: وکی پیڈیا)

یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ موجودہ اتحاد کی ایک جماعت اے این پی کے بانی عبدالولی خان بھی ماضی کے اتحاد سے دور رہے۔ اس وقت ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا عبدالحمید بھاشانی بھی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہوئے۔
اس وقت بلوچستان کے قوم پرست لیڈر اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی پی ٹی ایم کے سٹیج سے مصروف جدوجہد ہیں۔ یہ دلچسپ سیاسی حقیقت ہے کہ ان دونوں کے والدین عطااللہ مینگل اور صمد اچکزئی ایوب حکومت کے ناقدین میں ہونے کے باوجود پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کی تحریک کو ملک و قوم سے غداری قرار دیا ہے۔ حکومتی ترجمانوں نے سیاسی طعن کی نت نئی تراکیب استعمال کر کے سیاسی طنز کی لغت سازی میں حصہ ڈالا۔ایک ترجمان نے پی ڈی ایم کا ترجمہ 'پاکستان ڈسٹرکشن موومنٹ' کر ڈالا۔

 
پی ڈی ایم مختلف الخیال جماعتوں کا مجموعہ ہے جسے عمران خان کی حکومت کی رخصتی کے یک نکاتی ایجنڈے نے یکجا کر رکھا ہے (فوٹو: مسلم لیگ ن)

سیاسی طنز کے ایسے ہی نشتر ماضی کی اپوزیشن کو بھی سہنا پڑے تھے۔ ایوب حکومت کے وزیر مواصلات عبدالصبور خان نے پی ڈی ایم کو 'پاکستان ڈیتھ مومنٹ' قرار دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپنی آتش نوائی کا رخ اپوزیشن کی طرف کیے رکھتے ہیں۔
ایسے ہی ایوب خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو آگ سے کھیلنے والا قرار دیا تھا۔ مغربی پاکستان کی عوامی لیگ کا ایک حصہ جب پی ڈی ایم سے دوری اختیار کرگیا تو حکمران کنونشن مسلم لیگ نے اپوزیشن کے بارے میں 'کاغذی شیر' اور 'شیشے کے محل' میں رہنے والے جیسی سیاسی اصطلاحات استعمال کیں جو آج بھی سیاسی محاذ آرائی میں فریقین کے پسندیدہ فقرے ہیں۔
صدر ایوب کے سیاسی مخالفین نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں سیاسی و مالیاتی برابری کے لیے ون یونٹ ختم کرنے کا ایجنڈا پیش کیا۔ لیکن مختلف الخیال جماعتوں میں بہت سارے سیاسی نکات کے حوالے سے اختلاف رائے موجود تھا۔

ایوب خان کی مخالف جماعتوں کے نظریات بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے (فوٹو: فِلکر ریور)

ایوب دور کے وزیر ایس ایم ظفر کی کتاب Through The Crisis کے مطابق پی ڈی ایم کے رہنماؤں سابق وزیراعظم چودھری محمد علی، مولانا مودودی اور نوابزادہ نصراللہ خان ون یونٹ کے خاتمے کے مطالبے سے پوری طرح متفق نہیں تھے۔ آج بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال اپوزیشن اتحاد میں موجود ہے۔سینیٹ اور ضمنی الیکشن،اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں اور لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلز پارٹی واضح اور اختلافی موقف رکھتی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مختلف الخیال جماعتوں کا مجموعہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران خان کی حکومت کی رخصتی کے یک نکاتی ایجنڈے نے انہیں یکجا کر رکھا ہے۔اس کے قائدین مستقبل میں کسی امکانی انتخابی اتحاد کے حوالے سے منقسم سوچ رکھتے ہیں۔
دو بڑی جماعتیں اس امکان کی خفی انداز میں نفی کرتی ہیں جب کہ دیگر چھوٹی جماعتیں اس اتحاد کو انتخابی اتحاد میں بدلنے میں اپنے لیے سیاسی فوائد دیکھتی ہیں۔ اس صورت حال کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔

ایوب خان کی طرح وزیراعظم عمران خان بھی اپنی آتش نوائی کا رخ اپوزیشن کی طرف کیے رکھتے ہیں (فوٹو: اے پی پی)

اس دور کی پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں 'کمبائنڈ  اپوزیشن پارٹیز' نامی اتحاد کے نام سے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لے چکی تھیں۔ معروف محقق رفیق افضل کی کتاب 'پولیٹیکل پارٹیز آف پاکستان'کے مطابق ماضی کی پی ڈی ایم کی ممبر جماعتیں ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد 1970کے الیکشنز میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔
ماضی کے اتحادی انتخابات میں حریف  کی صورت سامنے آئے تو ایک نومولود جماعت پیپلز پارٹی نے سب کو زیر کردیا ۔ماضی کی اس مثال کو سامنے رکھا جائے تو آنے والے انتخابات میں حلیف حریفوں کے روپ میں نظر آسکتے ہیں، مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ستر کے الیکشن کی تاریخ دہرائی جائے ۔1977 کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی اتحاد کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔
سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کے بعد لانگ مارچ کو پی ڈی ایم ترپ کا پتہ خیال کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لانگ مارچ کی اصطلاح نوے کی دہائی میں زیادہ مقبول ہوئی۔بے نظیر بھٹو کا نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان فیصلہ کن ثابت ہوا تھا۔

 
پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں 'کمبائنڈ  اپوزیشن پارٹیز' کے نام سے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لے چکی تھیں (فوٹو: گلوبل ویلج سپیس)

اسی طرح نواز شریف نے ٹرین مارچ اور تحریک نجات کے نام سے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج کو منظم کیا۔ ایوب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک میں 'گھیراؤ ' کا سیاسی حربہ مقبول اور موثر ثابت ہوا۔ ملک کے دونوں حصوں میں گھیراؤ کی حکمت عملی نے ایوب حکومت کے اعصاب کو توڑ کر رکھ دیا۔
احتجاج سے نمٹنے کے لیے ڈیفنس آف پاکستان رولز اور دفعہ 144 کا سہارا لیا گیا۔13 نومبر 1968کو ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم نے پی آئی اے کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے کر ایوب کے خلاف میدان لگا لیا۔
پی ڈی ایم اے نے ملک کا سیاسی مزاج اور موڈ جانچتے ہوئے جنوری 1969 میں ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی کے نام سے سیاسی اور احتجاجی تحریک آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں ذوالفقارعلی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان اور ولی خان بھی اس کا حصہ بن گے۔ موجودہ پی ڈی ایم  کے جلسوں کے لیے کوئی قابل قدر انتظامی رکاوٹ ابھی تک نہیں ڈالی گئی۔

 
پی ڈی ایم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش میں ہے اور بظاہر سیاسی منظر نامے پر مستقبل قریب میں حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کا امکان مفقود ہے (فوٹو: اے ایف پی)

موجودہ اپوزیشن اتحاد کا حکومت پر تنقید کا تیر بہدف نسخہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں پی ڈی ایم کے جلسوں میں رونق بڑھانے میں روز بروز بڑھتی گرانی کا اہم حصہ ہے۔حکومت کو اپوزیشن کے احتجاج سے زیادہ خطرہ مہنگائی کے سبب بڑھتے اضطراب سے ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ مہنگائی ایوب حکومت کے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی تھی۔ 1966 میں آٹا 32 روپے من تھا۔ دو برسوں بعد یہ سو روپیہ من ہوگیا۔ 26 مئی 1968 کے دن کراچی کی کسی بیکری نے آٹے کی نایابی کی وجہ سے ڈبل روٹی نہیں بنائی۔چینی کا بحران موجودہ حکومت کی دُکھتی رگ بن چکا ہے۔ ایوب حکومت میں چینی پانچ روپے سے یکدم دس روپے سیر ‏ہو گئی تو حکومت کے 'عشرہ ترقی' کے نعروں کو ساتھ بہا کر لے گئی۔
آج سیاسی نظام کے خاتمے سے خائف کچھ طاقتیں سیاسی مسائل کا حل 'گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ' میں ڈھونڈتی ہیں۔ اس حوالے سے در پردہ اور ظاہری طور پر کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ جمہوریت کی بقا کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی مکالمے کی ضرورت مختلف سطحوں پر محسوس کی جا رہی ہے۔

سنہ 1967 میں ایوب حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنا (فوٹو: ڈھاکہ ٹریبیون)

مگر وزیراعظم عمران خان اپنے کرپشن کے خاتمے کے بیانیے سے پیچھے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ تمام انتظامی و سیاسی مشکلات کے باوجود وہ این آر او نہ دینے کا تواتر سے اظہار کرتے ہیں۔ بظاہر سیاسی منظر نامے پر مستقبل قریب میں حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت و مذاکرات کا امکان مفقود ہے۔ شہباز شریف، خورشید شاہ اور خواجہ آصف سمیت اپوزیشن کے رہنما کرپشن  کے الزامات میں پس دیوار زنداں ہیں۔
یہ منظر نامہ ماضی کے رجحانات سے یکسر مختلف ہے۔ صدر ایوب کی حکومت کے خلاف طلبہ، مزدور اور دانشور طبقہ میدان میں نکل آیا تو ایوب حکومت کو گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف جانا پڑا۔17 فروری 1969 کو ایوب خان نے نوابزادہ نصراللہ خان کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔
فریقین میں گول میز کانفرنس کے انعقاد پر اتفاق رائے ہو گیا ۔حکومت نے گرفتار اپوزیشن کے رہنماؤں کو رہا کر دیا۔ یہاں تک کہ  اگرتلہ سازش کیس کے نام سے بغاوت کا مقدمہ بھگتنے  والے شیخ مجیب الرحمان کی دھماکہ خیز رہائی نے ملک کی سیاسی فضا پلٹ کر رکھ دی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ہی 53 برس قبل اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا تھا (فوٹو: مسلم لیگ ن)

27  فروری سے 13 مارچ تک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے مختلف ادوار ہوئے۔ ایوب حکومت کے تفصیلی تجزیے پر مبنی کتاب  From Crisis to Crisis Pakistan 1962-1969 کے مصنف Herbert Feldman کے تجزیے کے مطابق 'راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے باوجود 25 مارچ 1969 کو ایوب حکومت کا خاتمہ اور مارشل لا کا نفاذ سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی جماعتوں اور رہنماؤں کی ناکامی بھی تھا۔
سیاست کی اپنی حرکیات ہیں جس میں بعض اوقات سب کچھ بدل جاتا ہے اور نئی سیاسی حقیقتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ سیاسی رجحانات اور رویوں کی جڑیں ماضی میں پیوست ہوتی ہیں۔
بعض اوقات ماضی ایک نئے انداز میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ ماضی اور حال کی دو تحریکوں میں پنہاں موافق اور مخالف سیاسی رویے، امکانات اور انجام اپنے اندر غور و فکر کا سامان رکھتا ہے۔ سیاسی روایتیں اور حکایتیں سینہ با سینہ منتقل ہوتی ہیں۔ ماضی کی پی ڈی ایم کا احوال اور انجام آج اپوزیشن رہنماؤں کے پیش نظر ضرور ہوگا مگر شاید وہ اس حوالے سے غالب کے طرفدار ہیں جنہوں نے کہا تھا۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی 

شیئر:

متعلقہ خبریں