Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سیاسی اتحاد کیوں اور کیسے ختم ہوتے ہیں؟

افراسیات خٹک کے مطابق ’پی ڈی ایم اگر ناکام ہوئی تو اس کی وجہ  پارٹی مفاد کو اتحاد کے مقاصد پر فوقیت دینا ہوگی۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز  سامنے آئی ہے۔ جس پر اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل پی ڈی ایم کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
 اس حوالے سے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی چار فروری کو بلا لیا گیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی سے وضاحت بھی مانگ لی ہے۔
ایسی صورت حال میں مختلف الخیال جماعتوں کے اس اتحاد کے مستقبل کے بارے میں چہ مگوئیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔

 

معروف تاریخ دان اور تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی اتحاد ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار ملکی حالات پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اتحاد کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر ملکی حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ اتحاد ختم ہو جاتے ہیں۔‘
اس کے برعکس سینیئر سیاست دان اور کئی تحریکوں کا حصہ رہنے والے سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپنے مفاد اور اتحاد کے مقاصد کے دوران توازن رکھنے میں ناکام ہوتی ہیں تو اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ڈاکٹر مہدی حسن نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ڈی ایم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ اس میں ایک بات ضرور ہے کہ حکمران جماعت میں بھی قیادت کا بحران ہے۔ اس کی کارکردگی عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہی۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں اچھا کام ہو رہا ہو۔ حکومت اپنے کاموں کی وجہ سے ناکام ہوسکتی ہے، اپوزیشن کی وجہ سے نہیں۔‘
اسی حوالے سے افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’پی ڈی ایم نے عوام میں شعور بھی بیدار کیا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ حکومت گھبرائی ہوئی ہے۔ پہلی دفعہ سیاسی جماعتوں نے آمریت کے اصل عوامل کو اجاگر کیا ہے۔ یہ اس کا کامیاب پہلو ہے۔ لیکن ابھی بھی اس اتحاد کو مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔‘
افراسیات خٹک کے مطابق ’پی ڈی ایم اگر ناکام ہوئی تو اس کی وجہ  پارٹی مفاد کو اتحاد کے مقاصد پر فوقیت دینا ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو نقصان ہوگا اور اتحاد برقرار نہیں رہ سکے گا۔‘

6  فروری 1981کو ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی گئی جس کا بنیادی مقصد ضیاءالحق کی آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت مخالف، آمریت مخالف اور انتخابی اتحاد بنتے رہے ہیں۔ ایک درجن سے زائد اتحادوں میں مسلم لیگ، ایوب خان، ذولفقار علی بھٹو، ضیاءالحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پرویز مشرف اور اب عمران خان کی حکومت کے خلاف بننے والا اتحاد شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک حکومت یا آمریت مخالف اتحادوں میں ایوب خان کے خلاف بننے والے متحدہ اپوزیشن اتحاد، ضیاءالحق کے خلاف بننے والا ایم آر ڈی اور پرویز مشرف کے خلاف بننے والا اے آرڈی کافی حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔
اسی طرح 1953 میں مسلم لیگ کے خلاف بننے والا سیاسی و انتخابی اتحاد ’دی یونائیٹڈ فرنٹ‘، پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والا اتحاد ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ اور مشرف دور میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ انتخابی میدان میں کامیاب ثابت ہوئے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے باوجود کسی بھی اتحاد کو مقاصد کی تکمیل یا کامیابی کے بعد ختم کرنے کا باضابطہ یا متفقہ اعلان نہیں ہوا بلکہ وہ ملکی حالات میں تبدیلی یا پھر اندرونی اختلافات کا شکار ہوکر ختم یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے گئے۔
ملکی تاریخ میں سب سے پہلا اتحاد 1952 میں ہوا جو ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اور ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا۔  یہ اتحاد اپنی ناکامیوں کے باعث معدوم ہوا اسی وجہ سے تاریخ میں اس کا ذکر بھی نہیں ملتا۔  1953میں دی یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام، جنتا دل اور کرشک پراجا پارٹی نے مل کر ایک اتحاد بنایا۔ یہ اتحاد بھی مسلم لیگ کے خلاف بنا۔ یہ اتحاد بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل بنایا گیا تھا جس کا مقصد بنگال کے عوام کو مسلم لیگ کا متبادل فراہم کرنا تھا۔ 1953 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں دی یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں جیت کر مسلم لیگ کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ مسلم لیگ صرف نو سیٹوں پر انتخاب جیت سکی تھی۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی باہمی سیاسی چپقلش کے باعث اس سیاسی اتحاد کی اہمیت عملاً ختم ہوگئی تھی۔

1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے ہوا جس میں پیپلز پارٹی کامیاب رہی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ایوب خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا پہلا بڑا اتحاد اس وقت تشکیل پایا جب 1964 کے صدارتی انتخابات کے دوران محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مدمقابل آنے کا فیصلہ کیا۔ انتخابات میں اگرچہ ایوب خان کو کامیابی ملی لیکن اس اتحاد سے ملک میں آمریت کے خلاف جدوجہد کو تقویت ملی۔ اسی اتحاد کے تسلسل کے طور پر نواب زادہ نصراللہ کی قیادت میں پانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحا د بنایا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ 'ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی سربراہی میں بننے والے اتحاد کی کوششوں اور جدوجہد کی وجہ سے ہی ایوب کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی وجہ سے یہ اتحاد اپنے مقاصد کے حصول کے قریب ترین رہا۔
1971  میں ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں اتحادی سیاست زوروں پر دکھائی دی۔  پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف نو سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحاد (پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ پی این اے کا نصب العین تھا کہ وہ ملک میں نظامِ مصطفی نافذ کریں گے۔ انتخابات میں پی این اے کو صرف 36 نشستوں پر کامیابی ملی۔
پی این اے نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کردی۔ یہ تحریک سول نافرمانی میں بدل گئی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حکومت کو کراچی،لاہور، حیدرآباد سمیت کچھ دیگر شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت اورپی این اے کئی باتوں پر متفق ہو چکے تھے کہ ضیاء  الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا، اس طرح یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول ’اس اتحاد کا بنیادی مقصد بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔ مارشل لاء لگنے سے حکومت ختم ہوگئی لیکن ملکی حالات ایسے بنے کہ پی این اے بھی ختم ہوگئی۔‘
6  فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا بنیادی مقصد ضیاءالحق کی آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ اس تحریک کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں 10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔

افراسیاب خٹک کے مطابق ’اے آر ڈی کی وجہ سے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں قربت پیدا ہوئی اور دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سینیئر سیاست دان سینیٹر افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ’ایم آر ڈی ایک بڑا اتحاد تھا۔ اس اتحاد کی جدوجہد بھی بہت طویل تھی۔ یہ واحد اتحاد تھا جس کے پاس آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی بحالی اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی موجود تھا لیکن بدقسمت سے اس پر عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ ضیاء کی موت کے بعد ایم آر ڈی بھی خود ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔‘
1988 سے 2002 کے درمیان بننے والے سیاسی اتحاد دراصل انتخابی اتحاد تھے۔ جن میں پہلا اتحاد پیپلز پارٹی کے مخالف سیاست دانوں کو اکٹھا کرکے ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کے نام سے بنایا گیا۔ 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے ہوا جس میں پیپلز پارٹی کامیاب رہی تاہم 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد نے بے نظیر کی سربراہی میں قائم انتخابی اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کو شکست دی۔
1993 کے انتخابات کے وقت اسلامی جمہوری اتحاد کا وجود ختم ہو چکا تھا جبکہ قاضی حسین احمد کی سربراہی پاکستان اسلامی فرنٹ تشکیل پایا جس کو بری طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے وہ اتحاد بھی اپنی موت آپ مر گیا۔
1999 میں پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو تحریک بحالی جمہوریت شروع ہوئی جس کی سربراہی بھی نواب زادہ نصراللہ خان کر رہے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں۔ تاہم 2002 کے انتخابات میں ان جماعتوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔
2002 کے اتنخابات میں مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) کے نام سے اتحاد تشکیل دیا۔ اس اتحاد میں ملک کی چھ مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ایم ایم اے ان انتخابات میں صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) میں صوبائی حکومت جبکہ صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ ایم ایم اے ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 57 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن گئی۔

مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے بیان پر وضاحت مانگ لی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

بعد ازاں یہ اتحاد جمیعت علمائے اسلام ف اور جماعت اسلامی کی قیادت کے باہمی اختلافات کے باعث اپنی مقبولیت برقرار نہ رکھ سکا۔
سینیٹر افراسیاب خٹک کے مطابق ’اے آر ڈی کے اتحاد کی وجہ سے ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں قربت پیدا ہوئی اور دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اسی میثاق جمہوریت کے نتیجے میں ہی اٹھارھویں ترمیم ہوئی۔‘
ان کے نزدیک ’یہ پہلا موقع تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کسی اتحاد نے آمریت کے خاتمے کے بعد آگے کے لائحہ عمل کو آگے بڑھایا۔ چھوٹی موٹی وعدہ خلافیوں کے باوجود دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی اور پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی ممکن ہوئی۔‘

شیئر: