پاکستان کا افغان طالبان پر امن عمل کا حصہ رہنے پر زور
قریشی نے کہا کہ امن عمل کا حصہ رہنے سے طالبان کو فائدہ ہوگا۔ (فوٹو: دفترخارجہ پاکستان)
پاکستان نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان امن عمل کا حصہ رہیں۔
خیال رہے طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنسوں اور مذاکرات کا تمام غیرملکی افواج کے انخلا تک حصہ نہیں بنیں گے۔
طالبان کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے اپنی افواج ستمبر تک افغانستان سے نکالنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جو کہ امن معاہدے میں دی گئی یکم مئی کی ڈیڈ لائن کی خلاف ورزی ہے۔
ابوظبی میں برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ انٹرویو میں پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’وہ (طالبان) اپنا فیصلہ خود کرلیں گے تاہم ان کو قائل کرنے کے لیے کہ امن عمل کا حصہ رہنا ان کے قومی مفاد میں ہے جو ہو سکا ہم وہ کریں گے۔‘
طالبان کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے بات چیت میں حصہ نہ لینے کے اعلان نے امن عمل کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا میں تاخیر کا لاجسٹکس کی وجہ سے امکان تھا اور طالبان نے تو غیر ملکی افواج کے انخلا کے حوالے سے اپنا مقصد بڑی حد تک حاصل کر لیا ہے۔
’ اس لیے انہیں 11 ستمبر کی نئی ڈیڈ لائن کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
’غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا اور اس کی تاریخ دے دی گئی ہے اور انخلا کا عمل یکم مئی سے شروع ہوگا جو کہ 11 ستمبر کو مکمل ہوگا۔‘
روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان طالبان پر دوبارہ بات چیت میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
قریشی نے کہا کہ امن عمل کا حصہ رہنے سے طالبان کو فائدہ ہوگا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کا طالبان سے کوئی رابطہ نہیں۔
پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا میں بات چیت کرانے میں کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں یکم مئی تک انخلا کا معاہدہ طے ہوا تھا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر امن عمل ڈیڈلاک کا شکار رہا تو تشدد میں اضافہ ہوگا۔
شاہ محمود نے کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کہ انڈیا کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کریں۔
’ہم ایٹمی طاقتیں ہیں جو کہ براہ راست تصادم کی طرف نہ جا سکتے ہیں اور نہ جانا چاہیے۔ تصادم خود کشی کے مترادف ہوگا۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے انڈین ہم منصب سے امارات میں ملاقات کا کوئی پلان نہیں۔