Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغان طالبان کے خواتین کے حوالے سے رویے میں نمایاں تبدیلی‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کر نے والی سرگرم کارکن آسیلا وردگ کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ دنوں میں قطر کے دارلحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کے دوران خواتین کے حوالے سے افغان طالبان کے رویے میں نمایاں تبدلی نوٹ کی ہیں۔
خیال رہے اس ہفتہ کے شروع میں طالبان اور افغان گروپوں کے درمیان دوحا میں مذاکرات ہوئے تھے جس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا جس میں خواتین کے حقوق ’اسلامی فریم ورک‘ کے اندر رہتے ہوئے یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
آسیلا وردگ کا کہنا تھا کہ دوحا کانفرنس کے دوران (خواتین کے حوالے سے)  مثبت اور سازگار ماحول پر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران کھانے اور چائے کے وقفے میں طالبان وفد کے اراکین خواتین سے گھل مل گئے۔

دوحا مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ  میں خواتین کے حقوق ’اسلامی فریم ورک‘ کے اندر رہتے ہوئے یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ فوٹو اے ایف پی

آسیلا نے کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور افغان خاتون یہ میرے لیے دلچسپی سے خالی نہیں تھا کہ گو کہ انہوں (طالبان) نے خواتین سے ہاتھ نہیں ملایا تاہم ہمارا گرم جوشی سے استقبال کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان مندوبین میں سے دو نے تو اپنے حس مزاح کا مظاہر کرتے ہوئے خواتین سے کہا انہوں نے سن رکھا تھا کہ وہ (خواتین) آئیں گی اور ان سے درخواست کریں گی کہ ہمیں ٹف ٹائم نہ دیں۔
آسیلا وردگ کا کہنا تھا کہ شاید میں غلط ہوں مگر ان کا رویہ خواتین کے حوالے سے اور حکومتی ملازمین کے حوالے سے مکمل تبدیل ہو گیا ہے۔
امریکن یونیورسٹی افغانستان کے سکالر غیزل حارس کا کہنا تھا یہ واضح نہیں کہ طالبان دوحہ ڈیکلیریشن پر دستخط کرکے کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔

دوحا مذاکرات میں شریک افغان خواتین امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے ساتھ۔ فوٹو اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی حکومت کی اصطلاح بہت زیادہ مبہم ہے اور یہ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس چیز کا خوف ہے کہ طالبان کی اسلامی حکومت کی تشریح کیا ہوگی۔ ’کیا اسلامی حکومت سے مراد ایسی حکومت ہوگی جو ملائیشیا یا انڈونیشیا میں ہے یا اس سے مراد سعودی عرب اور ایران کی حکومت ہے۔‘
طالبان کی پچھلی حکومت خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بہت زیادہ بدنام تھی۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ویڈیو لنک کے ذریعے سمپوزیم کو بتایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مذاکرات میں خواتین کی نمائندگی ہو۔ ’ہماری کوشش ہوگی کہ مذاکرات کی میز پر خواتین کی ایک سیٹ ہو اور ایک سے زیادہ ہوں۔‘

شیئر: