Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برج خلیفہ پر اپنا چہرہ دیکھنا قابل فخر لمحہ: بنگلہ دیشی تارکین مزیدخدمات کے لیے پرعزم

مشرف حسین سمیت آٹھ افراد کے چہرے برج خلیفہ پر دکھائے گئے تھے (فوٹو: عرب نیوز)
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مشرف حسین کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے وبائی صورتحال میں فراہم کردہ خدمات پر ’فرنٹ لائن ہیرو‘ کا درجہ ملنے کی اطلاع ہی ان کے لیے اہم اعزاز تھی، ایسے میں دنیا کی بلند ترین عمارت پر ان کا چہرہ دکھانا ایسا لمحہ تھا جو انہیں فخر کا احساس دے گیا۔
عرب نیوز سے گفتگو میں 38 سالہ مشرف حسین کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کیا تھا اور اس سے میری زندگی کیسے متاثر ہو گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب مجھے بہت سے لوگ جانتے ہیں، میں دنیا بھر میں موجود عزیزوں اور احباب سے فون کالز وصول کر رہا ہوں، یہ زندگی کی بڑی کامیابی ہے۔‘
دبئی بلدیہ کے ساتھ 2006 سے کام کرنے والے مشرف حسین سات دیگر افراد کے ساتھ ’فرنٹ لائن ہیرو‘ قرار دیے گئے تھے۔ یہ انتخاب متحدہ عرب امارات کی حکومت کے اس اقدام کا حصہ تھا جس کے تحت رضاکاروں اور پیشہ ور افراد کی ان خدمات کو سراہا گیا تھا جو انہوں نے 2020 میں کورونا وبا کے دوران سرانجام دی تھیں۔
برج خلیفہ پر دکھائی گئی تقریبا چار منٹ کی ویڈیو میں مختلف مناظر اور موسیقی کے ساتھ آٹھ افراد کی خدمات دکھائی گئیں تو اس کے ساتھ #OurUAEHeroes کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا گیا تھا۔ 
ویڈیو میسج میں موجود آواز کہتی ہے کہ ’ویکسین لگوا کر ہمارے ہیروز سے اپنے تعاون کا ثبوت دیں، فرنٹ لائن ہیروز نے اس وقت ہمارا خیال رکھا جب ہمیں ان کی اشد ضرورت تھی، اب ہماری باری ہے کہ ان کے لیے اپنے تعاون کا اظہار کریں‘۔
گزشتہ برس مارچ میں امارات کے نیشنل سٹرلائزیشن پروگرام کے لیے منتخب ہونے سے قبل مشرف حسین بلدیہ دبئی کے پیسٹ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ ان کے مطابق اپنے انتخاب کے بعد انہیں ذاتی حفاظت کے آلات (پی پی ایز) اور جراثیم ختم کرنے والے کیمیائی اجزا کا استعمال سکھایا گیا تھا۔ وبا کے دوران انہوں نے متعدد مقامات کو جراثیم سے محفوظ کرنے کے لیے کام کیا۔
بعض اوقات ناقابل رسائی مقامات کو جراثیم سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ ڈرونز بھی استعمال کرتے رہے۔

مشرف حسین سمیت 8 افراد کی تصاویر 16 اپریل کو برج خلیفہ پر دکھائی گئی تھیں (فوٹو: عرب نیوز)

متحدہ عرب امارات کی جانب سے رات میں نقل و حرکت پر پابندی لگا کر گلیوں، پارک اور عوامی ٹرانسپورٹ سہولیات کو جراثیم سے محفوظ کرنے کی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ رات آٹھ سے صبح چھے بجے تک روزانہ کی جانے والی اس سرگرمی کے دوران متعلقہ علاقوں کے مکینوں کو گھر پر ٹھہرنے کا کہا جاتا تھا۔
مشرف حسین کے مطابق وبا کے ابتدائی دنوں میں بہت زیادہ بے یقینی ہوتی تھی کہ اب کیا ہو گا اور آنے والے وقت میں ہمارے لیے کیا چھپا ہوا ہے۔ لیکن اس صورتحال نے انہیں یا ان کی ٹیم کو دیے گئے ہدف پر کام سے روکا نہیں۔
ان کے مطابق ہم ہمیشہ تین، پانچ یا سات افراد کی ٹیم کی صورت کام کرتے تھے، اسے سے مجھے حوصلہ ملتا کہ اگر دوسرے کر سکتے ہیں تو میں بھی یہ کر سکتا ہوں۔ لوگوں کی حفاظت کو اپنی مقدس ذمہ داری سمجھنا مجھے ہر صبح اپنے کام پر جانے کا حوصلہ دیتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر دوبارہ ایسا کرنا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم رات، دن مسلسل کام کرتے رہے تھے، ہماری ذمہ داریوں کے لیے کوئی اوقات کار متعین نہیں تھے، یہ انسانیت کی پکار تھی، اور اگر دوبارہ ایسا کرنا پڑا تو میں ضرور کروں گا۔

مشرف حسین خاندان کی زندگی بہتر بنانے کا مقصد لیے کئی برس قبل امارات پہنچے تھے (فوٹو: عرب نیوز)

متحدہ عرب  امارات میں اپنی آمد کے پہلے برس کو یاد کرتے ہوئے مشرف حسین کہتے ہیں ’کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک غیر ملک میں ایک روز ہیرو کے طور پر پہچانا جاؤں گا‘۔
ان کے مطابق وہ معلم بننا چاہتے تھے۔ 2003 میں اپنے اہلخانہ کو ایک بہتر زندگی دینے کی خواہش کے تحت اپنے جیسے ہزاروں دیگر بنگلہ دیشیوں کی طرح امارات پہنچے تھے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی تارک وطن متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔
امارات کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف نے جہاں انہیں مزید ذمہ دار اور زندگی میں بڑے چیلنجز کے سامنے کو تیار کیا وہیں یہ سب کچھ ذاتی زندگی میں بڑی قربانی کا نتیجہ بھی ہے۔
جمعے کو مشرف حسین نے اپنے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹی بیٹی کی سالگرہ میں ایک ویڈیو کال کے ذریعے شرکت کی تھی۔ سدرۃ المنتہی کو پیدا ہوئے ایک برس ہو چکا لیکن سفری پابندیوں کی وجہ سے مشرف حسین اب تک اپنی ننھی پری سے مل نہیں سکے ہیں۔
ان کے مطابق ’میں شدت سے اپنی بیٹی سے ملاقات کا منتظر ہوں، جیسے ہی وبا ختم ہوئی میں فورا گھر پہنچوں گا تاکہ اپنے اہلخانہ سے مل سکوں‘۔

مشرف حسین جراثیم سے حفاظت کے لیے کیے گئے خصوصی اقدامات کی ذمہ دار ٹیم کا حصہ تھے (فوٹو: عرب نیوز)

ڈھاکہ سے تقریبا 104 کلومیٹر دو واقع چاندپور کے مکین اور ان کے اہلخانہ منتظر ہیں کہ مشرف حسین کب ان کے درمیان پہنچتے ہیں۔
ان کے والدین کے مطابق مشرف حسین کے اعزاز کا جان کر ان کی خوشیوں کا کچھ ٹھکانا نہیں ہے۔ انہوں نے ہم سب کو معتبر کر دیا ہے۔
مشرف حسین کے 80 سالہ والد شہداللہ کے مطابق جب وہ اپنے پڑوسیوں سے ملتے ہیں تو وہ بیرون ملک ان کے بیٹے کی خدمات کو سراہتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعزاز ملنے کے بعد اپنے بیٹے سے کی گئی گفتگو یاد کرتے ہوئے شہداللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ اپنے میزبان ملک کی خدمت جاری رکھیں۔
والد کے مطابق ’ہم شدت سے ان کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن امارات کے مکین بھی اس وقت ان کی خدمات کے منتظر ہیں، ایسے میں اپنے اردگرد موجود افراد کے لیے جتنا اچھا کر سکتے ہیں ضرور کریں‘۔

شیئر: