ہم لوگ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اگر سوات میں کوئی مرگیا تو یہاں اسکے رشتہ دار افسوس کرینگے۔سب پیسہ جمع کرکے3دن تک کھانے کا انتظام کرینگے
انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی ۔۔ جدہ
قارئین کرام!پاک وہند کے باشندوں کی ایک خاص بات ہے جہاں کہیں بھی جاتے ہیں اپنے ماحول بنالیتے ہیں۔اپنی روایات اور رسم ورواج ساتھ لے کر جاتے ہیں۔آپ نے پردیسیوں سے انٹرویو کے اس سلسلے میں زیادہ تر خاندانوں یا پروفیشنلز کے انٹرویوز دیکھے اس مرتبہ ہم آپ کی ملاقات پاکستان کی شان پٹھان سے کرارہے ہیں۔ پٹھان بھائیوں نے سعودی عرب میں بھی اپنے اجتماعی مسائل کے حل کیلئے روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں جو ان کے بڑے بیٹھ کر حل کرتے ہیں جسے عرف عام میں’’جرگہ‘‘ کہاجاتا ہے پھر سب اسے مانتے ہیں۔جدہ کے ایک کمرے میں ہونے والے ’’جرگے‘‘ کے موقع پر جب ہم نے بات شروع کی تو بہت مزاا ٓیا ۔آئیے سنتے ہیں ۔یہ وضاحت کردیں کہ یہ گروپ ڈسکشن کی طرح کا انٹرویو تھا اس لئے مختلف لوگ درمیان سے جواب دیتے رہے۔
******
اردونیوز:اتنا ٹھنڈا علاقہ چھوڑ کر یہاں آگئے کیسا لگتا ہے ؟
نعیم خان : یہ صحیح ہے کہ ہمارے علاقہ بہت خوبصورت ہے مگر یہاں تو مکہ اور مدینہ ہے پھر کیا غم ہے۔ہاں وہاں ٹھنڈ زیادہ ہے یہاں تو سردی ہی نہیں لگتی۔ ہمارا تعلق نیلہ گرام تحصیل مٹہ سوات سے ہے۔وہاں باغات ہیں۔خوبصورتی ہے۔ ہمارے علاقے کے پھل بہت پسند کئے جاتے ہیں۔
اردونیوز:کون سے پھل ہیں جو بہت مشہور اور پسند کئے جاتے ہیں؟
نعیم خان :ہمارے علاقے میں آڑو اور سیب کے باغات ہیں۔وہاں کا ایک سیب ہے جسے ’’کالا کلو‘‘ کہتے ہیں یہ بہت مشہور ہے سنا ہے کہ امریکی سیب اسپرے کرکے لال سرخ کئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کا سیب اتنا سرخ ہوتا ہے کہ وہ کالا لگتا ہے۔
اردونیوز:اچھا آپ کب سعودی عرب آئے ؟اور یہاں آنے سے پہلے وہاں اپنے گائوں میں کیا کرتے تھے؟
نعیم خان :میں 1995ء میں سعودی عرب آیا تھا۔22سال ہوگئے۔وہاں ہم کھیتی باڑی کرتے ہیں۔گندم اگاتے تھے۔سیب بھی اگاتے تھے۔آڑو بھی وہاں کا بہت مشہور ہے ۔سردیوں میں توآڑو بہت ہوتا ہے۔
اردونیوز:اچھا ابھی میں نے دیکھا کہ یہاں بھی آپ سب لوگ بیٹھے کوئی مسئلہ حل کررہے ہیں کیا یہی جرگہ ہوتا ہے ؟
نعیم خان: جی یہی جرگہ ہوتا ہے ۔اصل میں ایک ساتھ مل بیٹھنے اور پھر مسئلہ حل کرنے کو ہی جرگہ کہتے ہیں۔ہم یہاں بھی جرگہ کرتے ہیں۔ایک گھر میں جمع ہوتے ہیں۔ اسے ڈیرہ کہتے ہیں۔ ہم سوات کے پٹھان ہیں۔ہم لوگ اکیلے نہیںرہتے۔ہمارا ڈیرہ ہے۔ ہم سب مل کر رہتے ہیں۔کوئی مسئلہ ہوجائے تو ہم میں جو بڑا اور سمجھ دار ہوتا ہے وہ جرگہ بلاکر مسئلہ حل کراتا ہے۔حتیٰ کہ سوات میں بھی اگر کوئی مسئلہ ہوجائے تو یہاں اگر اس کے بڑے ہوتے ہیں تو پھر یہاں جرگہ کیاجاتا ہے۔جرگہ اس طرح ہوتا ہے کہ دوگروپوں کے بڑے ہونگے اسے جرگے کا سربراہ تسلیم کیاجائے گا۔جو سربراہ ہوگا وہ عمر کیساتھ ساتھ سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی ہوگا۔ کچھ تعلیم بھی ہوگی۔پھر دونوں بڑوں کے سامنے مسئلہ پیش کیا جائے گا ۔پھر دونوں جانب کے بڑے جو فیصلہ کرینگے وہ دونوں گروپ قبول کرینگے۔
اردونیوز:آپ کے اس ڈیرہ پر کتنے آدمی رہتے ہیں؟
نعیم خان :اس ڈیرہ پر 28افراد رہتے ہیں۔ ہم نے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک باورچی کورکھا ہے جو سب کیلئے کھانا پکاتا ہے۔دوپہر میں ظہر کے بعد اور رات میں عشاء کے بعد سب کھانا کھاتے ہیں۔ باورچی کو 600سے1100ریال تک تنخواہ دیتے ہیں۔وہ کٹنگ وغیرہ بھی کرتا ہے۔دو وقت کھانا اور چائے بھی دیتا ہے۔
اردونیوز:کیا آپ لوگوںکا کوئی ایسا گروپ ہے جو دیگر مسائل بھی حل کرتا ہے؟
الطاف: دیکھیں ہم لوگ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیںمثال کے طور پر اگر سوات میں کوئی مرگیا یا کوئی حادثہ ہوگیا تو یہاں اس کا جو بھی رشتہ دار ہوگا اسکے ساتھ افسوس کرینگے۔سب پیسہ جمع کرکے3دن تک کھانے کا انتظام کریںگے۔ہمارے قبائل کیلئے ایک فلاحی ’’ تمال گرو ‘‘ ہے جس کے معنی دوستوں کی تنظیم کے ہیں ۔ سب لوگ 10،10یا جتنا بھی ہو جع کرینگے اور اگر اسے پاکستان بھیجنا ہے تو سب اس کو پیسے دینگے۔ٹکٹ وغیرہ بھی کرینگے۔صرف فون آجائے گا کہ فلاں شخص کے ساتھ یہ سانحہ ہوگیا ہے اس کیلئے 10یا15ریال دو۔
اردونیوز:اچھا صرف جرگے ہی کرتے ہیں یا گھومتے پھرتے بھی ہیں؟
الطاف: جی ہم لوگ یہاں گھومتے پھرتے بھی ہیں۔سعودی عرب میں بھی اچھا خاصہ علاقہ دیکھ لیا۔چھٹی ہوتے ہی گاڑی کرکے8،10لوگوں کو جمع کرکے ایک 2بکرا لیتے ہیں اور پھر گھومنے نکل جاتے ہیں۔
اردونیوز:گھومنے پھر نے میںپیسے بھی خرچ ہوتے ہونگے ؟
نعیم خان:پیسہ کمانے آئے ہیں مگر پیسہ خرچ بھی کرتے ہیں۔پیسہ خرچ ہوتا ہے تو کیا ہوا سعودی عرب کی زمین دیکھتے ہیں ۔یہی بڑی بات ہے۔ نصیرزئی سے بھی بات ہوئی،یہ بھی گاڑی چلاتے ہیں۔ درمیان میں لقمہ دیا کہ ہم یہاں بھی اپنی روایات پر قائم ہیں جرگے کے حوالے سے آپ کو بتائوں ،میرا چھوٹا بھائی اگر گائوں میں لڑتا ہے اور میں یہاں بڑا ہوں تو پھر ہم یہاں جرگہ کرکے مسئلہ حل کرلیتے ہیں۔ہمارا فیصلہ تسلیم کیاجاتا ہے اور وہاں لڑائی ختم ہوجاتی ہے۔ہم جہاں بھی ہوں اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی مشکل ہوجائے تو جرگہ کرکے مسئلہ حل کرتے ہیں۔گائوں میں بھی کوئی مسئلہ ہوجائے تو ہم پہلے پولیس یا عدالت نہیں جاتے بلکہ جرگہ کرکے ہی مسئلہ حل کرلیتے ہیں ۔عموماًصلح ہوجاتی ہے ۔بہت کم ہی پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
عظیم خان :جرگے کانظام بہت اچھا ہوتا ہے۔جرگے میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔کوئی کسی بھی پارٹی سے ہو ۔ جرگے کے سربراہ کو خوف خدا ہوتا ہے۔وہ انصاف کی بات کرتا ہے۔حکومتی ادارے بھی یہ انصاف نہیںکرتے۔
اردونیوز:اچھا سوات میں روزگار کے مواقع نہایت کم ہیں کیا اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے یا صنعتیں نہ ہونا ہے؟
عظیم خان:یہ بات غلط ہے کہ وہاں روزگار کے مواقع کم ہیں۔ہمارے علاقے میں بہت روزگار ہے۔مٹہ میں مزدور نہیں ملتے اصل میںلوگ کام نہیں کرتے ۔ اب دیکھیں یہاں تو پہاڑ توڑنے کیلئے بھاری بھاری مشینیں ہیں مگر ان مشینوں کو چلانے کیلئے بھی اکثریت پٹھان ہی ہے یہاں وہ سخت محنت کرتے ہیں مگرسوات میں مزدور صبح سے دوپہر 12بجے تک کام کرتے ہیں پھر کام نہیں کرتے جبکہ کھانا بھی کام کرانے والا دیتا ہے۔ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے۔سیب ،آڑو کے باغات ان جیسے پوری دنیا میںنہیں۔خوبانی بھی بہت زبردست ہے۔ہمارے آڑو اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ایک کریٹ میں8یا9آتے ہیں جو 6،7سومیں مل جاتے ہیں۔سیب ایسا ہوتا ہے کہ آپ سب کو بھول جائیں۔سوات میں امن ہونے سے بہت روزگارہوگیا ہے ۔ ہمارے پٹھان بھائیوں نے مجھے سوات آنے کی دعوت بھی دی تاہم ساتھ ہی انتباہ کیا کہ ٹھنڈ میں نہ آئیں ورنہ ہیٹر کے آگے ہی بیٹھیں رہیں گے۔
اردونیوز:اچھا یہ الطاف صاحب سے کچھ بات ہوجائے آپ ٹائلز کا کام کرتے ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کے ٹائلز میں کیا فرق ہوتا ہے؟
الطاف :سعودی عرب کے ٹائلز اور پاکستان کے ٹائلز میں کافی فرق ہے ۔یہاں کا ٹائل زیادہ اچھا ہوتا ہے۔روخام پاکستان کا اچھا ہوتا ہے جسے پاکستان میں سنگ مرمر کہاجاتا ہے۔پاکستان کا سنگ مرمر بہت پسند کیاجاتا ہے مگر وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔پاکستان کا مہنگاٹائل برآمد کردیاجاتا ہے۔چین میں بھی 3قسم کے مال ہوتے ہیں ۔ ہم لوگ ٹائلز کی کٹنگ کیلئے مشین کا استعمال کرتے ہیں جوسروخ کہلاتی ہے جسے گرینڈر بھی کہتے ہیں۔
اردونیوز:ـٹائلز کے کام میں کون سی قوم زیادہ کامیاب ہے؟
الطاف :ٹائلز کے کام میں پنجاب کے لوگ زیادہ ہیں۔سعودی عرب میں ٹائلز کے کام کیلئے پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے مگر مصری،ترکی کے مقابلے میں پاکستانی کی ڈیمانڈ زیادہ ہیں۔ہر کام کا الگ پیسہ ہوتا ہے۔ادھر لیزر پر کٹائی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭