Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں گاڑیوں کی قیمت کم نہ ہونے کے عوامل کیا ہیں؟

محمد کاشف کے مطابق ڈالر کے ریٹ کے ساتھ کاروں کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ویسے تو مہنگائی کے وار ہر صنعت اور ہر چیز پر چل رہے ہیں تاہم اس مہنگائی میں اتارچڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بکنے والی گاڑیوں کی قیمت ایک بار بڑھ جائے تو کبھی کسی نے واپس آتے نہیں دیکھی۔  
ایک اندازے کے مطابق ملکی تاریخ میں گاڑیوں کی قیمتیں سب سے زیادہ پچھلے تین سے چار سالوں میں بڑھی ہیں اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی شرح تقریبا 50 فیصد بتائی جاتی ہے۔ 
پاکستان میں دو طرح کی گاڑیاں دستیاب ہیں ایک وہ جو باہرکے ملکوں سے سیکنڈ ہینڈ امپورٹ کی جاتی ہیں اور ایک وہ جن کے مختلف حصے بین الاقوامی کمپنیاں باہر سے درآمد کر کے ان کو پاکستان میں جوڑ کے یہاں بناتی ہیں۔ 
عام طور پر گاڑیوں کی قیمتیں ڈالر کے اوپر نیچے ہونے سے منسلک کی جاتی ہیں۔ در آمد کی جانے والی گاڑیاں تو اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں، لیکن پاکستان کے اندر بننے والی گاڑیوں کی قیمتیں بھی ڈالر کی شرح ہی متعین کرتی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی۔ 

’ڈالر بڑھتے ہی نئی انوائس کا اجرا‘

اردو نیوز نے اس کی وجوہات جاننے کے لیے پاکستان کے آٹو موبائیل سیکٹر کے ماہرین سے بات کی ہے۔ 
لاہور کے ایک شوروم کاشف موٹرز کے پروپرائٹر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں تبدیلی محض اسی وقت آتی ہے جب ڈالر کے ریٹ کے ساتھ یہ قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، لیکن گاڑیاں بنانے والی کمپنیز ڈالر کی شرح کم ہونے پر قیمتیں کم نہیں کرتیں۔  
’جیسے ہی ڈالر کی قیمت اوپر جاتی ہے تو اسی رات تمام کمپنیوں کی طرف سے ہمیں انوائس موصول ہو جاتی ہے کہ ایک ایک لاکھ یا پچاس ہزار تک قیمت بڑھ گئی ہے۔ جب ڈالر نیچے جاتا ہے تو اس وقت مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ ہمیں نہیں پتا یہ کس نظام کے تحت قیمت بڑھاتے ہیں۔‘ 
محمد کاشف نے بتایا کہ پچھلے چار سالوں میں ایک گاڑی کی قیمت میں 10 سے 20 لاکھ روپے تک اضافہ ہوا ہے۔
سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 14 ایسی کمپنیاں ہیں جو آٹوموبائل مینوفیکچرنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یعنی وہ کمپنیاں جو خود سے گاڑیاں بنا رہی ہیں۔

حسن علی کے مطابق ’حکومت اس وقت 30 سے 40 فیصد تک نئی گاڑی پر ٹیکس لے رہی ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

اس طرح ان کمپنیوں کے مساوی ایک اور صنعت پاکستان آٹوموٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفکچرز یعنی گاڑیوں کے پرزے بنانے والی صنعت ہے۔  یہ سپئیرپارٹس بنانے والی کمپنیاں کافی تعداد میں بڑی کمپنیوں کو پرزے فراہم کرتی ہیں اور بلواسطہ قیمتوں کے تعین کے نظام سے منسلک ہیں۔ لیکن قیمتوں کے اضافے کے بارے میں دونوں صنعتوں کے نمائندوں کا اپنا اپنا موقف ہے۔ 

’گاڑی کی قیمت کا 40 فیصد حکومتی جیب میں‘

حال ہی میں پاکستان میں کاروں کا کاروبار شروع کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی کے اعلی عہدیدار حسن علی (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ گاڑیوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کی بنیادی وجہ یہاں موجود صنعت کا مکمل طور پر مقامی نہ ہونا ہے۔ 
 ’پاکستان میں گاڑیاں بنتی نہیں ہیں یہاں صرف جوڑی جاتی ہیں۔ بڑی گاڑیوں کا 80 فیصد سامان باہر سے آتا ہے۔ انجن تک باہر سے آتے ہیں۔ امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے، ڈالر ریٹ بڑھنے اور ٹیکسز کی بھرمار وہ عوامل ہیں جو پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں کو بہت اوپر لے گئے ہیں۔‘
’حکومت اس وقت 30 سے 40 فیصد تک نئی گاڑی پر ٹیکس لے رہی ہے۔ تو دوسرے لفظوں میں اس وقت 44 لاکھ کی بکنے والی گاڑی میں 10 سے 15 لاکھ حکومتی جیب میں جا رہا ہے۔‘  

’کمپنیاں منافع نیچے نہیں لاتیں‘ 

اس سوال کے جواب میں کہ جب ڈالر ریٹ بڑھتا ہے تو گاڑیوں کی قیمتیں فوری بڑھا دی جاتی ہیں، لیکن جب نیچے آتا ہے تو اس کی افادیت نظر کیوں نہیں آتی؟
حسن علی کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی کمپنی جو کاروبار کر رہی وہ اپنا منافع نیچے نہیں لائے گی۔ یہ وہی منافع ہے جو وہ ایک کار سے ہر جگہ کما رہی ہے۔‘

حسن علی کے مطابق ’یہ کوئی قانون نہیں یہ کمپنیوں کی اپنی سہولت ہے گاڑیوں کا مہنگا ہونا صرف ڈالر کے مرہون منت نہیں ہے۔‘ (فوٹو: ریڈرز ڈائجسٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس کے پاکستان میں اسمبلنگ پلانٹ لگے ہوئے ہیں تو وہ یہاں بجلی بھی استعمال کررہے ہیں اور تیل بھی استعمال ہو رہا ہے تو جب ان چیزوں کے نرخ بڑھتے ہیں تو کمپنیاں اس بنیاد پر کاروں کی قیمتیں نہیں بڑھاتیں اس لیے ایک غیر محسوس نظام کے تحت قیمت کی بڑھوتری ڈالر کے ساتھ نتھی کی گئی ہے۔‘
حسن علی کے مطابق ’یہ کوئی قانون نہیں یہ کمپنیوں کی اپنی سہولت ہے گاڑیوں کا مہنگا ہونا صرف ڈالر کے مرہون منت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈالر ریٹ کے نیچے آنے سے قیمتیں نیچے نہیں آتیں جو کمپنی پہلے دباؤ برداشت کرتی رہتی ہے وہ بعد ازاں اپنا خسارہ پورا کر تی ہے۔‘  
سپیئر پارٹس بنانے والی کمپنیوں کی ایسوسی ایشن پاپام کے سابق سیکرٹری محمد ارشد نے اردو نیوز کو بتایا کہ گاڑیوں کے کچھ اہم پرزے بیرون ملک سے آتے ضرور ہیں لیکن وہ گاڑیوں کی یہ کمپنیاں بیرون ملک اپنی ہی فیکٹریوں میں تیار کرتی ہیں۔ 

محمد ارشد نے بتایا کہ ’چھوٹی گاڑیوں کے زیادہ تر حصے انجن کے علاوہ پاکستان میں بنتے ہیں۔‘ (فوٹو: فری پک)

 1000 سی سی گاڑیوں کے پرزوں کی درآمد 

محمد ارشد نے بتایا کہ ’چھوٹی گاڑیوں کے زیادہ تر حصے انجن کے علاوہ پاکستان میں بنتے ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں جو کہ ہزار سی سی سے اوپر ہیں ان کا بہت کم سامان ہے جو پاکستان میں تیار ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے پرزے  تائیوان اور کوریا جیسے ملکوں میں لگے اپنے پلانٹس میں بنا کر پاکستان لے آتے ہیں اور یہاں اسمبل کرتے ہیں۔ تو دوسرے لفظوں میں گاڑی پاکستان میں اسمبل ہونے کے باوجود اس کے پرزہ جات امپورٹ ہوکر ہی آتے ہیں۔‘ 
محمد ارشد نے بتایا کہ اس کے باوجود کہ پاکستان میں بننے والے پرزوں کی قیمتیں اس تناسب سے نہیں بڑھتیں جس طرح باہر سے آنے والے پرزوں کی بڑھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار کے 30 سالوں میں گاڑیوں کی بڑھی ہوئی قیمتیں کم ہوتے نہیں دیکھیں۔ 
’حکومت کو ایسا شفاف طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جس سے کم از کم ڈالر کے ساتھ ان قیمتوں کا بڑھنا کنٹرول کیا جائے۔‘ 

شیئر:

متعلقہ خبریں