Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ بہت عجیب ہے کہ لوگوں کو شادی پر مجبور کیا جائے‘

اس بل کا ذکر سوشل میڈیا پر ہوا تو صارفین نے اس پر مختلف آرا کا اظہار کیا
جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید نے قانون سازی کے لیے اسمبلی میں بل جمع کروایا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نوجوانوں کی 18 سال کی عمر کے بعد شادی نہ کیے جانے کی صورت میں والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
اسمبلی میں جمع کردہ بل میں موقف اپنایا گیا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کو روکنے کا واحد حل عین اسلامی قوانین کے مطابق شادی کا بر وقت ہوجانا ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق ’والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی وقت پر شادی کو یقینی بنائیں اور 18 سال کے بعد بچوں کی شادی میں تاخیر نہ کی جائے۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے میں والدین کے ساتھ نہ صرف تعاون کرے بلکہ اس عمل کو سہل اور کم خرچ بنانے کے لیے  ضابطہ اخلاق طے کردے اور شادی میں ہونے والی غیر رسمی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے۔
جماعت اسلامی کے ممبر سندھ اسمبلی نے نوجوانوں سے بھی درخواست کی کہ وہ ’نکاح کو آسان بنائیں جہیز کی لعنت سے بچیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بیٹی کی شادی کو والدین پر بوجھ بنا دیا گیا ہے جو کہ افسوسناک امر ہے۔
جمع کروائے جانے والے بل کا ذکر سوشل میڈیا پر ہوا تو صارفین نے اس پر مختلف آرا کا اظہار کیا۔ جن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر ہلکے پھلکے انداز میں بات کر رہے ہیں تاہم سنجیدگی سے سوال اٹھانے والے بھی موجود ہیں۔
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی بڑی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے کہا کہ ’جماعت اسلامی کی جانب سے تجویز کردہ بل (18 سال کی عمر میں لازمی شادی) کو پیپلز پارٹی بلڈوز کر دے گی۔‘
یہ بات انہوں نے لینہ نامی صارف کی ٹویٹ کے جواب میں لکھی، جس کے نیچے جوابات کی ایک لمبی لائن لگتی چلی گئی۔
لینہ کی ٹویٹ میں لکھا گیا تھا ’اس کا مطلب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 18 سالہ جوڑا معاشی طور پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرے گا؟ کیا سندھ حکومت نئے شادی شدہ جوڑے کو رہائش اور صحت اور ٹریول الاؤنس دے گی؟ گریجویشن کے بعد ملازمت، بچوں کی پرورش؟ کیا دونوں ہی 18 سال کے تصور ہوں گے یا پھربل تجویز دیتا ہے کہ لڑکی 12 سے 18 سال کی ہو گی؟
ایک صارف نے بختاور بھٹو کو جواب دیتے ہوئے لکھا گیا ’پہلے حیدر آباد کا کچرہ بلڈوز کریں، جس کو دریاؤں میں ڈالا جا رہا ہے۔‘تاہم دوسری جانب فہیم مہر پیپلز پارٹی کی حمایت میں سامنے آئے اور لکھا ’جماعت اسلامی پر تنقید کے بجائے ان ٹرولز نے بل کو پیپلز پارٹی کے خلاف موڑنا شروع کر دیا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے عوام کے انتخاب کے حق کا تحفظ کیا ہے، انہوں نے یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ بل کس نے پیش کیا اور پی پی کے خلاف شور شروع کر دیا۔‘

پپیتا خان نے کچھ لکھنے یا کہنے کے بجائے اپنا مدعا کچھ یوں بیان کیا کہ آصف علی زرداری کی ایک مختصر جیف تصویر لگائی جس میں وہ زور زور سے ہنس رہے ہیں۔

اسد احمد نے بلاول بھٹو کو جواب دیتے ہوئے طنز کیا: ’یعنی ہیلتھ انشورنس نہیں دینی، مگر وہ بلڈوز کریں گے ، واہ‘

محمد خان نے امید ظاہر کرتے ہوئے لکھا ’امید ہے آپ ایسا کر لیں گے، یہ بہت عجیب ہے کہ لوگوں کو شادی پر مجبور کیا جائے۔‘

شیئر: