پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے حق میں دیے گئے نظرثانی کیس فیصلے کے خلاف حکومت کی دائر کی جانے والی درخواستوں پر رجسٹرار آفس نے سات اعتراضات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اور وزیراعظم نے تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے۔
رجسٹرار آفس نے کہا ہے کہ از خود نوٹس دائر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔
مزید پڑھیں
-
جسٹس فائز وزیراعظم کے خلاف مقدمہ نہیں سن سکتے: سپریم کورٹNode ID: 540296
-
میری شہرت کو داغدار کیا گیا: جسٹس فائز عیسٰی کا اختلافی نوٹNode ID: 542756
اردو نیوز کے پاس موجود رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر مبنی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حکومتی درخواستوں میں صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک سے زائد جگہوں پر تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔ نظرثانی درخواستوں میں مقدمے کا عنوان ازخود نوٹس لکھا گیا جبکہ ازخود نوٹس دائر نہیں کیا جاتا یہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔
رجسٹرار آفس کے مطابق سپریم کورٹ رولز میں نظرثانی کیس کے فیصلے میں تصحیح درخواست کی دفعہ شامل نہیں ہے جبکہ درخواستوں میں استدعا کودرست انداز میں تحریر نہیں کیا گیا۔ نظرثانی درخواست صرف سپریم کورٹ رولز کے آرڈر 28 کے تحت ہی دائر ہو سکتی ہے۔ درخواستیں ناقابلِ سماعت ہونے پر واپس کی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ بدھ کو حکومت کی جانب سے غیر معمولی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستوں پر عدالتی فیصلے کے خلاف کیوریٹیو یا تصحیح نظر ثانی درخواستیں دائر کی گئیں جن پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگا کر واپس کیا۔
ترجمان وزارت قانون کی جانب سے ایک اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ جلد ہی اعتراضات کو دور کرنے کے بعد دوبارہ سے نظر ثانی درخواستیں دائر کی جائیں گی۔
