میری شہرت کو داغدار کیا گیا: جسٹس فائز عیسٰی کا اختلافی نوٹ
میری شہرت کو داغدار کیا گیا: جسٹس فائز عیسٰی کا اختلافی نوٹ
ہفتہ 20 فروری 2021 16:05
قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق ’چیف جسٹس کی جانب سے مجھے جانب دار کہنا افسوسناک ہے‘ (فوٹو: سپریم کورٹ ویب)
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے کیس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا 28 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کیس کے فیصلے میں 20 اعتراضات اٹھا دیے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’جج کسی غیر قانونی کام کا نوٹس لے سکتا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے میری شہرت کو داغدار کیا۔‘
’اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے میری ذات پر اعتراض نہیں کیا، چیف جسٹس کی جانب سے مجھے جانب دار کہنا افسوسناک ہے۔‘
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وزیراعظم کے بیان پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا، بظاہر وزیراعظم کا بیان غیر آئینی تھا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق ’غیر متوقع طور پر کیس کو ختم کر دیا گیا اور ایک جج کو آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے روکا گیا۔‘
’دو رکنی بینچ نے عوامی مفاد یقینی بنانا چاہا مگر اسے روک دیا گیا اور چیف جسٹس نے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔‘
ان کے مطابق ’میں نے چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط لکھا کہ ایک جج کا حلف اسے اپنی صلاحیتوں اور صداقت سے فیصلے کرنے کا پابند کرتا ہے۔‘
’میرے لیے عدالتی فیصلہ تکلیف دہ تھا، اگر اختلافی نوٹ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔‘
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس کیس کو بدعنوانیوں کو روکنے کی کوشش کے طور پر لیا گیا، پھر ایک جج کی سرزنش اور روک تھام کے ساتھ رشوت ختم ہوئی۔‘
’میں نے استعفیٰ پیش کرنے پر غور کیا، پھر مجھے یاد آیا کہ یہ کسی جج اور اس کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں نہیں۔‘
جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق ’اس سے کہیں زیادہ اہم چیز آئین، لوگوں کے حقوق ہیں، کیس کے جاری کیے گئے فیصلے میں غیر قانونی کام کیے گئے۔‘
’کیس سننے والے دو رکنی بینچ کو بتائے بغیر چیف جسٹس نے نیا بینچ تشکیل دے دیا، کیس سننے والے جج جسٹس مقبول باقر کو نئے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ساتھی ججز سے مشاورت کے بغیر مجھے وزیراعظم سے متعلق مقدمات سننے سے روک دیا گیا، مجھے بھیجے بغیر بینچ میں شامل جونیئر جج کو فیصلے کی کاپی بھیج دی گئی۔‘
’مجھے بتائے بغیر کیس کا فیصلہ ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا، فیصلے پر ایک جج کے دستخط نہیں اس لیے کیس ختم نہیں ہوا۔‘
فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ ’بینچ میں شامل جج کے دستخط کے بغیر فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں، ایک جج کو کام سے روکنے سے متعلق فیصلے کا پیراگراف 6 غیر آئینی ہے۔‘
’کیس کے فیصلے کا پیراگراف 6 اسلامی اصولوں کے خلاف ہے، فیصلے کا پیراگراف 6 عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف اور جج کے حلف نامے کے برخلاف ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کھلی عدالت میں این اے 65 میں پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے جاری فنڈز کی دستاویزت پیش کی گئیں، دستاویزات کو چیک کیے بغیر معاملہ ختم کر دیا گیا۔‘
’وزیراعظم کے خلاف مقدمہ نہ سننے کا مطلب ہے جج صرف نجی کیسز سن سکتا ہے، جانب داری کا الزام عمران خان خود لگا سکتے تھے اٹارنی جنرل ان کے ذاتی وکیل نہیں۔‘
ان کے مطابق ’آئین کسی جج کو دوسرے جج کے دل میں جھانک کر جانب داری کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، وزیراعظم کے صرف آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‘
’آرٹیکل 248 وزیراعظم کو عہدے کے غلط استعمال یا غیر قانونی کام پر استثنیٰ نہیں دیتا، سینیٹ الیکشنز سے قبل وزیراعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا۔‘
فائز عیسیٰ کے اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خرید و فروخت کا کہہ رہی ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ تین ججز بھی بینچ میں شامل تھے۔‘
’پانچ رکنی بینچ کی تشکیل اور جسٹس مقبول باقر کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کیا تھا، ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر پانچ رکنی لارجر بینچ بنایا گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کرپٹ پریکٹس کے خلاف کیس شروع ہوا، کرپٹ پریکٹس پر شروع ہونے والا مقدمہ ایک جج کی تضحیک اور پابندی پر ختم ہوا۔‘