روس کا ترکی کے خلاف 'سیاحتی کارڈ' کا استعمال، سفری پابندی میں توسیع
روس کا ترکی کے خلاف 'سیاحتی کارڈ' کا استعمال، سفری پابندی میں توسیع
بدھ 2 جون 2021 8:02
سنہ 2020 میں تقریباً 20 لاکھ روسی سیاح ترکی گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ترکی کے مفاہمتی رویے کے باوجود روس نے ترکی جانے والی پروازوں پر پابندی میں مزید توسیع کر دی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ترکی میں کورونا کے کیسز میں اضافے کے بعد روس نے اپریل کے وسط سے سفر پر پابندی عائد کر دی تھی جو یکم جون تک برقرار رہنا تھی، تاہم روس نے پابندی میں مزید تین ہفتوں کی توسیع کر دی ہے۔
روس کا یہ اقدام ترکی کی سیاحت کی صنعت کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔ روس سے تقریباً پانچ لاکھ سیاح ترکی کا رخ کرتے ہیں، جو پابندی کے بعد متبادل سیاحتی مقامات کا چناؤ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ سنہ 2020 میں تقریباً 20 لاکھ روسی سیاح ترکی گئے تھے۔
خیال رہے کہ سیاحتی شعبے سے ہونے والی آمدنی کے ذریعے ترکی اپنا بیرونی قرضہ اتارتا ہے۔
روس کے ترکی کے سفر پرعائد پابندی میں توسیع کے اقدام کو سیاسی تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ترکی کی روس کے خلاف یوکرین کی حمایت اور یوکرین کے وزیراعظم کے دورہ استنبول پر روس میں ترکی کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے تجزیہ کار ایمری ایرسن کا کہنا ہے کہ ’روس میں کورونا کے کیسز کا تناسب ترکی سے زیادہ ہے، روس کی سفر پر پابندی میں توسیع کے پیچھے سیاسی مقاصد کا نہ ہونا ناقابل یقین ہے۔‘
یہ روس کی جانب سے سیاحت کو ترکی کے خلاف فائدہ اٹھانے کے طور پر استعمال کرنے کا پہلا موقع نہیں ہے۔
نومبر 2015 میں شام کی سرحد پر ترکی کی جانب سے روسی جنگی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد روس نے معاشی پابندیوں کا اعلان کیا تھا جن میں روس اور ترکی کے درمیان چارٹر پروازوں کی بندش بھی شامل تھی۔
روس کے اس اقدام سے سالانہ کی بنیاد پر ترکی جانے والے 30 لاکھ روسی سیاحوں کو مجبوراً متبادل ممالک کا رخ کرنا پڑا تھا۔
روس میں سیاحتی کمپنیوں کو بھی منع کیا گیا تھا کہ وہ ترکی کے لیے سیاحتی پیکج فروخت نہ کریں۔
چند روسی سیاستدانوں نے بھی ترکی کے روس کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی نشاندہی کی ہے اور سیاحتی شعبے کو ترکی کے خلاف استعمال کرنے کا کہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو کریمیا کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنے پر اکسانے کا مطلب روس کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔
ترکی نے سنہ 2019 میں یوکرین کو ڈرون بھی فروخت کیے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈرون کی اس ڈیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی روس کے خلاف اتحاد کا حصہ بن رہا ہے۔
روسی سیکیورٹی سروس نے حال ہی میں یوکرین کے ساتھ سرحد پر ڈرون پروازوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ ترکی کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ یوکرین کے ساتھ ڈرون کا معاہدہ روس کے ساتھ مخالفت میں نہیں کیا گیا۔
پولینڈ کی ایک تجزیہ کار کیرل واشیلوسکی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ترکی کے سفر پر پابندی میں توسیع کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے روس نے ترکی کی جانب عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے خیال میں ترکی کے اقدامات اس کے مفادات کے خلاف ہیں اور اگر ترکی نے یہ رویہ جاری رکھا تو سنجیدہ نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
کیرل واشیلوسکی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکی نے مغربی اتحادی ممالک کو پیغام بھجوائے جائے ہیں جن کی بنیاد پر روس روس نے سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن اور ترک ہم منصب طیب اردوغان کے درمیان ملاقات 14 جون کو برسلز میں نیٹو سربراہان کے اجلاس کے دوران متوقع ہے۔ اس اجلاس میں ترکی کی ایف 35 فائٹر جیٹ پروگرام، امریکی حریفوں کا پابندیوں کے ذریعے مقابلہ، اور روسی دفاعی نظام ایس 400 میں شمولیت ایک مرتبہ پھر متوقع ہے۔
پیر کو ترکی نے امریکہ کے روس کے علاقائی اثر و رسوخ سے متعلق خدشات دور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ترکی نے ایس 400 دفاعی نظام کی مانیٹرنگ کے لیے تعینات روسی میزائل ماہرین کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تجزیہ کار کیرل واشیلوسکی کا کہنا ہے کہ ترکی کو ایس 400 دفاعی نظام سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ روس کے اقدامات کے تناظر میں ترکی کو احتیاط برتتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے، یہی عناصر نیٹو کانفرنس کے دوران ترکی کے رویے پر اثر انداز ہوں گے کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے ممکنہ پیشکش پر کیا فیصلے کیے جائیں۔
حال ہی میں ترکی نے نیٹو اتحادی ممالک کو قائل کیا تھا کہ روس کے اتحادی ملک بیلاروس پر پابندیاں نہ عائد کی جائیں۔ ترکی کے روس کے ساتھ مفاہمتی رویے کا ممکنہ مقصد روسی سیاحتوں پر سفری پابندی ختم کرنا تھا تاکہ اس سال دوبارہ ترکی کے سیاحتی شعبے کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم ترکی کے مفاہمتی رویے کے باوجود روس نے ترکی جانے والی پروازوں پر عائد پابندی نہیں ختم کی۔