پاکستان کی قومی اسمبلی میں آج مالی سال 2021-2020 کا وفاقی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جس کے لیے ایوان میں صرف 86 ارکان کو بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔ اجلاس کے دوران سماجی فاصلے کے اصولوں کے مدنظر ماضی کے برعکس اپوزیشن کی جانب سے روایتی احتجاج کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
-
سپیکر قومی اسمبلی کورونا وائرس کا شکارNode ID: 475781
-
ایک دن میں متعدد سیاستدان کورونا کا شکارNode ID: 483746
-
احسن اقبال سمیت 80 سے زائد ارکان اسمبلی کورونا کا شکارNode ID: 484216
پارلیمانی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کا دن پارلیمان میں عموماً ایک ہنگامہ خیز دن ہوتا ہے۔ حکومت بجٹ پیش کرتی ہے تو اپوزیشن معمول کے مطابق اسے الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دے کر پوری قوت کے ساتھ احتجاج کرتی ہے تو حکمران جماعتیں بھی اپنی عددی قوت سے اس احتجاج کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اپوزیشن ارکان بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ کے سامنے جمع ہوتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور بعض اوقات تو کبھی روٹی اور کبھی چوڑیاں تک پیش کر دی جاتی ہیں۔
ملکی معاشی صورت حال اور حکومت اور اپوزیشن کی تعداد میں کم فرق کی وجہ سے رواں سال بجٹ اجلاس تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکل گھڑی سمجھا جا رہا تھا۔ حکومت نے کورونا کے باعث ورچوئل اجلاس کی تجویز دی تو اپوزیشن نے یہ تجویز اس لیے مسترد کر دی تھی کہ حکومت چالاکی سے بجٹ پاس کرانا چاہتی ہے۔
ایسے میں حکومت نے اجلاس تو بلا لیا لیکن قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزرا شیخ رشید اور شہریار آفریدی سمیت کم و بیش 25 ارکان قومی اسمبلی، چھ سینیٹرز اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے درجنوں ملازمین کورونا کا شکار ہو گئے۔ صورت حال تبدیل ہوئی تو اپوزیشن کا رویہ بھی بدل گیا۔

اب بجٹ اجلاس کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت محدود ارکان کے ساتھ بجٹ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ اس معاہدے پر حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا۔ اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت ایم ایم اے اس معاہدے کی مخالف ہے۔
قومی اسمبلی کے ایک ترجمان کے مطابق حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ایک وقت میں قومی اسمبلی کی کل تعداد کا 25 فیصد یعنی زیادہ سے زیادہ 86 ارکان ایوان میں بیٹھ سکیں گے۔
اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی مجموعی تعداد کے تناسب سے حکومت سے 46 اور حزب اختلاف سے 40 افراد ایوان میں بیٹھ سکیں گے۔
معاہدے کے مطابق قومی اسمبلی کے ارکان اور عملے کے وہ افراد جن کا کورونا ٹیسٹ نہیں ہوگا ان کو اسمبلی ہال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
قومی اسمبلی ترجمان کے مطابق سپیکر کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 30 جون تک جاری رہے گا اور اجلاس کی کارروائی روزانہ تین گھنٹے تک جاری رہے گی۔ اپوزیشن نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ وہ بجٹ پر ووٹ ڈالنے کے دن کے علاوہ کورم کی نشاندہی نہیں کرے گی۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رینما سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ مشکل وقت میں اپوزیشن نے حکومت کے لیے مزید مشکلات ہیدا نہ کرنے کا فیصلہ کر کے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمانی جماعتیں فیصلہ کریں گی کہ وہ کسی خاص دن میں شرکت کرنے والے اراکین کے نام سپیکر کو فراہم کریں اور صرف ان ممبران کو اس ایوان میں آنے کی اجازت ہوگی جن کے نام فہرستوں میں موجود ہوں گے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو ایوان کے سامنے کسی وزیر کے بجائے پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اپوزیشن ارکان بجٹ اجلاس کے دوران حکومتی کارکردگی کو زیر بحث لانے کے لیے کٹوتی کی تحاریک پیش کرنے کا حق استعمال کریں گے۔
ان تحاریک پر بحث بھی ہوگی تاہم ان پر رائے دہی نہیں ہوگی اور اپوزیشن اس سے دستبردار ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فنانس بل اور ڈیمانڈز اینڈ گرانٹس کی حتمی منظوری کے لیے ہی رائے شماری ہوگی تاہم کسی بھی قانونی سقم سے بچنے کے لیے اس دوران کورم پورا رکھا جائے گا۔
نوید قمر نے مزید نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ممبران کو حاضری کے لیے اسمبلی ہال میں آنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ارکان گیٹ نمبر ایک پر اپنی حاضری لگوا سکیں گے۔
دوسری جانب ایم ایم اے کے مختلف موقف کے باعث اپوزیشن میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ ایم ایم اے نے معاہدے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت ایوان کے کسی بھی رکن کو اجلاس میں شرکت سے روکا نہیں جا سکتا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے رکن قومی اسمبلی مولانا اسد محمود نے کہا کہ 'ہمیں خدشہ تھا کہ حکومت موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چالاکی سے اپنے لیے مشکل ترین بجٹ پاس کروانے کی کوشش کرے گی۔ افسوس ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اپوزیشن جماعتیں بجٹ آنے سے پہلے اس کے خدوخال جانے بغیر کیسے اس کو پاس کرانے کی یقین دہانی کرا سکتی ہیں؟ ہم نے بہرحال اجلاس میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہمارے مطالبے پر ایم ایم اے کے پندرہ ارکان کی نشستیں ایوان میں لگا دی گئی ہیں۔
