Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: یہ کہانی فلمی ہے

مئی کے آخری ہفتے میں اچانک خبریں آئیں کہ میہول لاپتہ ہیں۔ (فائل فوٹو: زی نیوز)
زندگی ہو تو میہول چوکسی جیسی۔ اگر آپ نے ابھی تک ان کا نام نہیں سنا تو بس یہ مان کر چلیے کہ آپ کی ہیرے جواہرات اور سیر و سیاحت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ کوئی شرمندہ یا پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔
زندگی گزارنے کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ سادگی پسند ہیں اور میہول چوکسی کو سادگی بالکل پسند نہیں۔ اب آپ اربوں ڈالر میں کھیلتے ہوں تو سادگی میں کیا لطف ہے، ہم نے تو یہ ہی دیکھا ہے کہ سادگی اور آمدنی کا اکثر چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیشہ نہیں، لیکن اکثر۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے۔
خیر میہول چوکسی کی زندگی کی کہانی میں وہ سب کچھ ہے جو ایک کامیاب مسالہ بالی وڈ فلم میں ہونا چاہیے۔
وہ ایک بڑے جوہری ہیں یا یوں کہیے کہ تھے، اور انڈیا کے ایک بینک کو تقریباً دو ارب ڈالر کا چونا لگانے کے ایک کیس میں انڈین حکام کو مطلوب ہیں۔
الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھانجے نیرو مودی کے ساتھ مل کر پنجاب نیشنل بینک کو تقریباً 140 ارب روپے کا دھوکہ دیا۔ میہول اور نیرو دونوں ہی اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
چار پانچ سال پہلے دونوں اچانک انڈیا سے غائب ہوگئے۔ نیرو آج کل برطانیہ کی ایک جیل میں سکون کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں انڈیا واپس لانے کی کوششیں اب قانونی باریکیوں کے آخری مراحل میں ہیں۔ لیکن میہول نے ویسٹ انڈیز کے چھوٹے سے ملک اینٹیگا کی شہریت لے لی تھی۔
لمبے عرصے کے لیے گھومنے پھرنے جانا ہو تو ویسٹ انڈیز کا کوئی مقابلہ نہیں، وہاں کے صاف ستھرے ساحلوں پر سیر کرنے میں جو مزہ ہے وہ مشکل سے ہی کہیں اور ملے گا۔
جب تک میہول اور نیرو انڈیا میں تھے تو ان سے کسی نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر شاید کسی نے انہیں بتایا ہوگا کہ اب نکل لینے میں ہی فائدہ ہے، اس لیے وہ جہاز میں بیٹھے اور روانہ ہوگئے۔ نیرو کی کہانی پھر کبھی، آج صرف میہول پر فوکس کرتے ہیں کیونکہ وہ ہی سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں۔

میہول چوکسی پر پنجاب نیشنل بینک کو تقریباً 140 ارب روپے کا دھوکہ دینے کا الزام ہے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

انڈیا سے روانہ ہونے سے قبل دونوں فیشن اور فلموں کی دنیا کی بڑی بڑی نام چین ہستیوں کی میزبانی کے لیے مشہور تھے۔ بڑ ے بڑے سٹارز ان کے بے پناہ قیمتی گہنوں کو پروموٹ کرتے تھے۔ بس مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ بندوں کا ایک سٹائل تھا، آپ گوگل میں سرچ کریں گے تو ان کے لائف سٹائل کی جھلک آپ کو نظر آ جائے گی۔
مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے میہول کو انڈیا لانے کی کوششیں کافی دنوں سے چل رہی تھیں لیکن اینٹیگا ملک بھلے ہی بس انتا بڑا ہو جتنا دلی کا ایک بڑا محلہ لیکن وہاں کا عدالتی نظام کافی فعال ہے۔ اس لیے میہول کے ان تمام اختیارات کا دفاع کیا جارہا ہے جو کسی بھی شہری کو حاصل ہونے چاہییں۔
اینٹیگا کے وزیراعظم کا تو یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے ملک کی اپوزیشن کو خرید رکھا ہے اس لیے وہ مسلسل میہول کو انڈیا نہ بھیجنے اور ان کے اختیارات کا تحفظ کرنے کے لیے وزیراعظم پر دباؤ قائم کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حزب اختلاف سے میہول چوکسی کا کیا رشتہ ہے لیکن اتنا وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ شہریت او پاسپورٹ حزب اختلاف کی جماعتیں نہیں دیا کرتیں۔

میہول چوکسی اور ان کے بھانجے نیرو مودی چار پانچ سال پہلے اچانک انڈیا سے غائب ہوگئے۔ (فائل فاٹو: گیٹی امیجز)

لیکن مئی کے آخری ہفتے میں کہانی نے ذرا ڈرامائی موڑ لے لیا۔ اچانک خبریں آئیں کہ میہول لاپتہ ہیں اور اینٹیگا سے غائب ہوگئے ہیں۔ ایک دو دن بعد معلوم ہوا کہ وہ ڈومینیکا میں ہیں، یہ اینٹیگا سے تقریباً 100 میل دور ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔
میہول کا الزام ہے کہ انہیں وہاں اغوا کر کے لایا گیا ہے تاکہ انہیں انڈیا واپس لایا جا سکے۔ ان کا الزام ہے کہ انہیں واپس لانے کے لیے انڈین ایجنسیوں نے ایک پلان تیار کیا تھا جس میں ایک خوب صورت عورت اور کچھ کمانڈو ٹائپ مسٹنڈے شامل تھے۔
خاتون نے پہلے میہول سے دوستی کی، کچھ دن انہیں ساحل پر ٹہلایا، اب ساحلوں پر اکیلے ٹہلنے میں کیا مزہ ہے، اور بیویاں کہاں اتنا صحت کی فکر کرتی ہیں کہ ساحل پر ٹہلنے جائیں؟ خیر پھر انہیں بہانے سے اپنے گھر بلایا اور وہاں کمانڈو ٹائپ لوگوں نے انہیں پکڑا، پیٹا، اور کشتی میں بیٹھا کر ڈومینیکا پہنچا دیا۔ انڈیا میں ذرائع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ میہول کیوبا جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

میہول اس وقت ڈومینیکا کی ایک جیل میں بند ہیں۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

سچ کیا ہے یہ تو میہول، انڈین ایجنسیاں اور شاید اینٹیگا کے وزیراعظم ہی جانتے ہیں جو کافی اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ میہول کو اغوا نہیں کیا گیا تھا اور انہیں ڈومینیکا سے سیدھے انڈیا بھیج دیا جانا چاہیے۔انڈین حکام کو بھی لگا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے اس لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی ایک ٹیم ایک چارٹر جیٹ میں بیٹھی اور ڈومینیکا پہنچ گئی۔
چار پانچ دن وہاں انتظار کیا، ڈومینکا کے ساحل پر گھومے (اس کی تصدیق نہیں کرسکتے لیکن اگر نہیں گھومے تو غلط کیا کیونکہ شام کو اور صبح سویرے ساحل پر گھومنے میں مزہ بھی آتا ہے اور صحت کے لیے بھی اچھا ہے) اور جب لگا کہ قانونی کارروائی ابھی لمبی چلی گے تو جہاز میں دوبارہ بیٹھے اور انڈیا واپس آ گئے۔
اب میہول ڈومینیکا کی ایک جیل میں بند ہیں، ان پر ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا مقدمہ چل رہا ہےاور ظاہر ہے کہ عدالت سے آپ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ تفتیش بعد میں ہوتی رہے گی ابھی آپ فیصلہ سنا دیجیے، جہاز چارٹر کیا ہے اور اس کا کرایہ چڑھ رہا ہے۔

انڈیا کے بڑے بڑے سٹارز ان کے بے پناہ قیمتی گہنوں کو پروموٹ کرتے تھے (فائل فوٹو: دا وائر)

اور فیصلہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میہول کو اینٹیگا واپس بھیج دیا جائے کیونکہ انڈیا میں شہریت کا قانون صاف طور پر کہتا ہے کہ اگر آپ نے کسی دوسرے ملک کی شہریت لے لی ہے تو آپ کی انڈین شہریت خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔
تو اس کہانی سے کیا سبق اخذ کیا جا سکتا ہے۔ پہلا سبق تو یہ ہی ہے کہ ہمارے مکان کی قسط ایک بھی دن لیٹ ہوجائے تو بینک سے فون آنے لگتے ہیں، 130، 140 ارب روپے کی نگرانی کوئی نہیں کر رہا تھا؟ تو ذرا اپنا نظام سدھاریے۔
دوسرا یہ کہ بندے پر مقدمہ چلانا ہے تو اسے باہر مت جانے دیجیے۔ واپس لانے میں بہت کام بڑھتا ہے، اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع ہوتا ہے، یہ وہی پیسہ ہے جو ہم اور آپ سے ٹیکس کے نام پر وصولا جاتا ہے۔
اور ہم جیسوں کے لیے سبق یہ ہے کہ اس طرح کی کہانیوں میں زیادہ نہ الجھیں۔ یہ اپنے لیول سے اوپر کی باتیں ہیں۔ ٹہلنے کے لیے مقامی ساحل ہی ٹھیک ہے۔
لیکن پھر بھی دل نہ مانے اور کسی بینک کو چونا لگا کر کہیں باہر جانے کا دل کرے تو ذرا خیال رکھیے گا، ساحل پر اکیلے ٹہلنے میں مزہ بھلے ہی نہ آتا ہو لیکن صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
یقین نہ ہو تو میہول چوکسی سے پوچھ لیجیے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں