کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے انڈیا نے اپنی ویکسین بنائی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سچن تندولکر، عالیہ بھٹ، اکشے کمار، اکشر پٹیل ۔۔۔ یہ فہرست ذرا عجیب ہی ہے۔ لیکن یہ کسی چیریٹی کرکٹ میچ کے لیے فلمی ستاروں کی ٹیم نہیں ہے، یہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کی زد میں آنے والے چند ہائی پروفائل لوگ ہیں۔ ویسے تو آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں لیکن اگر چاہیں تو انہیں دیکھ کر سبق حاصل کرسکتے ہیں۔
ان کے پاس شہرت اور دولت دونوں ہیں اور سنا ہے کہ ضرورت کے وقت یہ دونوں ہی چیزیں بہت کام آتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس بھی ہوں تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں، کم سے کم ضرورت پڑنے پر بہترین سے بہترین علاج تو میسر ہوگا، اگر نہیں ہیں تو تھوڑی زیادہ احتیاط سے کام لینے میں کیا برائی ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ سچن یا عالیہ نے احتیاط سے کام نہیں لیا ہوگا۔ سبق صرف یہ ہے کہ آپ کوئی بھی ہوں، اور کہیں بھی، کورونا وائرس سے محفوظ نہیں ہیں۔ کورونا وائرس کی نظر میں ویسے تو سب برابر ہیں لیکن انفیکشن ہونے کے بعد یہ برابری ختم ہو جاتی ہے۔
اگر گذشتہ برس کورونا وائرس ایک طوفان تھا تو اس مرتبہ سونامی ہے۔ پلک جھپکتے ہی کیسز کی تعداد ایک لاکھ یومیہ سے تجاوز کر گئی ہے، یعنی گذشتہ برس کی چوٹی سر کر لی گئی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ ابھی تو بس شروعات ہے۔
فی الحال مختلف ریاستوں میں مقامی سطح پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، مہارشٹر میں تو پورے اپریل کے لیے ایک جزوی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
دلی جیسے دوسرے بڑے شہروں میں بھی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ گذشتہ برس مارچ میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوگا یا ہو سکتا ہے، لیکن تب سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ پھر بھی بازاروں میں اور سڑکوں پر نہ پیر رکھنے کی جگہ ہے اور نہ منہ پر ماسک لگانے میں دلچسپی۔
شکر ہے کہ آخرکار آسام، کیرالہ اور تمل ناڈو میں اسمبلی انتخابات کے لیے پولنگ ختم ہوگئی ہے لیکن مغربی بنگال میں ابھی منزل دور ہے۔ انتخابات کے دوران سوشل ڈسٹنسنگ کی جو دھجیاں اڑائی گئیں وہ بس دیکھنے کے قابل تھیں۔ انتخابی جلسے اور جلوس دیکھ کر بس یہ لگتا تھا جیسے سیاستدان اور ان کے مداح یہ سوچ کر گھر لوٹتے ہوں کہ ارے ہمیں آج بھی کورونا نہیں ہوا، چلو کل پھر ٹرائی کریں گے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حالات بگڑتے رہے اور سیاستدان خاموش بیٹھے رہے۔ پوری طرح خاموش تو نہیں، جلسوں میں تو انہیں چپ کرانا مشکل ہو جاتا ہے لیکن کورونا وائرس کا ذکر کرنے سے سب نے گریز کیا کیونکہ ترجیحات کی فہرست میں انتخابات پہلے آتے ہیں اور کس میں ہمت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ووٹروں میں خوف پھیلانے کا خطرہ مول لے؟ وہ گھروں میں بیٹھے رہ گئے تو کیا ہوگا؟
چلیے آپ خاموش رہے تو کوئی بات نہیں، آپ جانیں اور آپ کا سیاسی ضمیر۔ لیکن اور بھی بہت کچھ ہے جو کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں جب ٹیکوں کی کمی نہیں ہے تو یہ پابندی لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ فی الحال صرف 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہی ٹیکا لگوا سکتے ہیں۔ ٹیکے کے پروگرام پر آپ اپنی گرفت ہلکی کیوں نہیں کرتے؟ اس لال فیتا شاہی سے کسے فائدہ پہنچ رہا ہے؟
ہونا یہ چاہیے کہ جو ٹیکا لگوانا چاہے جہاں چاہے جاکر لگوا سکے۔ جیسے باقی سارے ٹیکے لگتے ہیں۔ پولیو سے لے کر ہیپاٹائٹس تک کون سا ایسا ٹیکا ہے جس کے لیے آپ کو پہلے سے رجسٹریشن کرانا اور اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے؟ اور ساتھ میں آپ کی فوٹو بھی کھینچی جا رہی ہے جیسے حکومت آپ کی فیملی ایلبم تیار کر رہی ہو۔
ایسا کون ہے جو دھوکہ دے کر دو مرتبہ ٹیکا لگوا لے گا؟ کون ایسا ہے جو کہے گا کہ میرے انجکشن میں دوائی ذرا اوپر تک بھر لینا، میرا زیادہ تر کام گھر کے باہر ہی ہوتا ہے۔ پہلا لگوانے میں تو لوگ ڈر رہے ہیں۔
اس لیے سر اگر ممکن ہو تو ٹیکوں پر کنٹرول ختم کر دیجیے، آزادی کے ساتھ بازار میں بکنے دیجیے اور ہر اس کلینک کو ٹیکے لگانے کی اجازت دے دیجیے جس کے پاس انہیں فرج میں رکھنے کی سہولت موجود ہو۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو دلی ممبئی جیسے شہروں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کو دو چار دن میں ٹیکے لگائے جاسکتے ہیں۔
دوسرا کام ہے ان ٹیکوں کی منظوری دینا جو باہر کے ملکوں میں لگائے جارہے ہیں۔ ایسے کئی ٹیکے ہیں جو محفوظ بھی ہیں اور کورونا وائرس سے تحفظ میں کامیاب بھی۔ ان کے استعمال کی اجازت دے دیجیے۔
مانا کہ مغربی دنیا پر ہمیشہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا لیکن جو ٹیکے امریکہ اور یورپ میں لگائے جا رہے ہیں ان کی درخواستیں فاسٹ ٹریک تو کر سکتے ہیں۔ اس سے وہ لوگ بھی ٹیکے لگوانے کے لیے آگے آئیں گے جنہیں انڈیا میں فی الحال دستیاب ٹیکوں پر مکمل بھروسا نہیں ہے۔ ان کی فکر بھی جائز ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
کوئی ملک اپنی عوام کو ایسے ٹیکے لگانے کی اجازت نہیں دے گا جن کے استعمال میں خطرہ ہو۔ اس لیے فکر تو کیجیے لیکن ضرورت سے زیادہ نہیں۔
ہم تو لگوا چکے ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو آپ بھی اس بارے میں غور کیجیے گا۔ ٹیکا لگوانے کے بعد بھی ’منہ چھپا‘ کر گھر سے باہر نکلنے میں کوئی شرم نہیں ہے۔
ماسک کمزوری یا خوف کی نہیں طاقت اور سمجھداری کی نشانی ہے، اسے فخر سے پہنیں اور ہاں جہاں تک گھر سے باہر نکلنے کا سوال ہے، بشیر بدر کی وہ غزل تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر میں رہا کرو۔۔۔ یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو۔