اب بس کچھ ہی دن جانے کو ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھریں گے کہ کون سا ٹیکہ لگوایا؟ دیسی یا پردیسی؟ آپ کچھ بھی کہیں ’غیرملکی‘ مال کی اپنی الگ ہی شو آف ویلیو ہوتی ہے۔
لیکن اس کیس میں اچھی بات یہ ہے کہ یہ غیر ملکی ٹیکے لوگوں کی شان بھی بڑھائیں گے اور زندگیاں بھی بچائیں گے۔
اس لیے ہندوستان کی حکومت نے آخرکار وہ کر ہی دیا جو کسی بھی ذمہ دار حکومت کو کرنا چاہیے۔ یا یہ کہیے کہ بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا کیونکہ سائنسدان، سیاستدان، اناڑی اور کھلاڑی سب بس ایک ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ بھائی کورونا وائرس کے کیس بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اگر حالات پر قابو پانا ہے تو جہاں جو ٹیکہ ملے اور جس قیمت پر بھی ملے، ہندوستان میں اس کے استعمال کی اجازت دے دی جانی چاہیے۔
مزید پڑھیں
-
دل سے دلی: غریبوں کا مسئلہ غربت کا وائرسNode ID: 468576
-
دل سے دلی: کورونا کی ’سونامی‘ بن کر واپسیNode ID: 555036
-
دل سے دلی: کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!Node ID: 557246
جب ملک کے اندر تیار ہونے والے ٹیکوں سے بات نہیں بنی، اور وہ اس لیے کہ حکومت نے کروڑوں ٹیکے ایکسپورٹ ہونے دیے، اور ملک میں جگہ جگہ سے ٹیکوں کی کمی کی شکایت آنے لگی، تو حکومت نے کہا کہ ضد کوئی اچھی بات نہیں ہوتی، اگر آپ کو لگتا ہےکہ باہر کے ٹیکے منگوانے سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو منگا دیتے ہیں، لیکن اس خوش فہمی میں مت رہیے گا کہ یہ بھی مفت ہی لگائے جائیں گے۔
غیرملکی ٹیکے لگوانے کے لیے آپ کو جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑے گا اور وہ مناسب قیمت ادا کرنا ہوگی جو غیر ملکی کمپنیاں مانگیں گی۔ یہ اوریجنل امپورٹڈ ٹیکے ہیں، اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
ظاہر ہے کہ ہمارے خیال میں سوچ یہ ہی رہی ہوگی، لیکن حکومتیں کب یہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مشورے پر عمل کر رہی ہیں۔
بہر حال جو ہوگیا سو ہوگیا، اب جو زندہ ہیں اور جنہیں یہ لگتا ہے کہ مزید زندہ رہنے کے لیے ٹیکہ لگوانا اچھی حکمت عملی ہے لیکن جو اب تک بس یہ خبریں سن کر بچ رہے تھے کہ انڈیا میں استعمال ہونے والی کم سے کم ایک ویکسین کے شاذ و نادر ہی سہی لیکن خطرناک سائیڈ افیکٹس ہو سکتے ہیں، وہ بے فکر ہو کر کلینک میں جائیں گے اور ہزار پندرہ سو روپے دے کر فائزر، موڈرنا یا جانسن اینڈ جانسن کا ٹیکہ لگوا لیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں کبھی کسی کی سنتی نہیں ہیں۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح انڈیا میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اچھے اور برے لیکن یہاں ہم امیر اور غریب کا ذکر کر رہے ہیں۔

انڈیا کی ٹیکہ پالیسی میں اب تک اس فرق کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ بھائی ملک کی تین چوتھائی آبادی بہت غریب ہے، اسے آپ مفت میں ٹیکے دیجیے لیکن کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے ایک دو ہزا روپے کی کوئی ویلیو نہیں ہے، ان کے لیے وہ دروازے بند کرنے سے کیا فائدہ جن سے گزرنے کے لیے ان کے پاس وسائل موجود ہیں؟ وہ جہاں چاہیں جائیں اور ٹیکہ لگوا لیں۔
اب تک بڑی غیرملکی کمپنیاں انڈیا میں اپنا ٹیکہ بیچنے سے بچ رہی تھیں کیونکہ حکومت نے پرائس کنٹرول کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ فی الحال جو ٹیکے لگائے جا رہے ہیں اس کا ایک انجیکشن صرف ڈیڑھ سو روپے میں خریدا جا رہا ہے۔
اس لیے انڈیا کی بے پناہ بڑی مارکیٹ میں غیر ملکی کمپنیوں کی دلچسپی پلک جھپکتے ہی ختم ہوگئی۔ مغربی دنیا میں ان کے ٹیکے دس سے 20 ڈالر کے درمیان بک رہے ہیں اور ان کے پاس کئی کئی سو ملین ٹیکوں کے آرڈر پہلے سے موجود ہیں تو پھر وہ کیوں چکر میں پڑتے۔
لیکن یکم مئی سے سب بدل جائے گا۔ باہر کے ٹیکے بھی آئیں گے اور ٹیکہ لگوانے کے لیے عمر کی پابندی بھی ختم ہوجائے گی۔ اب اگر 18 سے زیادہ اور 45 سال سے کم عمر کے لوگ بھی چاہیں گے تو ٹیکہ لگوا سکیں گے لیکن سرکاری ہسپتالوں میں نہیں۔
کیونکہ پرانی فلموں کے اصول پسند باپ کی طرح حکومتیں اپنی عوام کی محبت میں کچھ رعایت تو کرسکتی ہیں، کچھ نرم دلی دکھا سکتی ہیں، لیکن پوری طرح اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کر سکتیں۔
اس لیے سرکاری ہسپتالوں میں فی الحال 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ہی ٹیکے لگائے جائیں گے۔
