اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے زہرہ جلال نے بتایا کہ طالبان نے ان کو اس لیے لے گئے کہ وہ صوبائی کونسل کی رکن ہیں اور حکومت کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کو اس بات کی بالکل بھی امید نہیں تھی کہ طالبان ان کا پیچھا کریں گے اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیں گے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اردو نیوز کو بتایا ’زہرہ جلال صرف دو گھنٹے ہمارے پاس رہیں۔ انہیں عمائدین کی اس ضمانت پر کہ یہ ہمارے خلاف کام نہیں کریں گی، چھوڑ دیا گیا۔‘
زہرہ جلال کا کہنا تھا کہ ’ہم کابل سے ان کے ہدف پر تھے۔ میں توعوام کی نمائندہ ہوں۔ عوام نے مجھے منتخب کیا ہے اور ان کی خدمت کر رہی ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کبھی ایسا ہو گا۔ ‘
انہوں بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’طالبان نے ہمارے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ میرے ساتھ چار بیٹے اور بیٹی تھی، دو بیٹے بطور گارڈ ہمارے ساتھ تھے۔ طالبان نے میرے بیٹوں سے اسلحہ لے لیا تھا۔‘
مئی کے آغاز میں امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کے بیشتر صوبوں کے اضلاع پر قبضے کے لیے افغان طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
لڑائی میں اضافے اور طالبان کی جانب سے سرحدی چیک پوسٹوں پر قبضے نے افغان عوام بالخصوص خواتین کو جہاں تشویش میں مبتلا کیا ہے، وہیں زہرہ جلال کو طالبان کی جانب سے اپنے ساتھ لے جانے کی خبر سے بھی خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس سوال پر کہ کیا طالبان نے انہیں ڈرایا دھمکایا تو ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے تو پورے افغانستان کو ڈرایا دھمکایا ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی دشمنی حکومت کے ساتھ ہے۔ وہ نہ حکومتی عہدیداروں نہ اسمبلی کے ارکان اور نہ فوجیوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ کام چھوڑ دیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں لے جاتے ہوئے وہ بھی ڈر رہے تھے کہ کہیں راستے میں فوجی نہ ہوں یا گاڑی میں جی پی ایس نہ ہو۔ وہ غصے میں بھی تھے۔ راستے میں رک کر پانی اور انرجی ڈرنکس بھی لیتے تھے۔ دو ڈھائی گھنٹے کا سفر تھا۔‘
’میں نے راستے میں طالبان کو بتا دیا تھا کہ ’میں زہرہ جلال کی بہن ہوں، لیکن ان کے مرکز پہنچنے کے بعد وہاں پر موجود ان کے بڑوں کو اپنی شناخت ظاہر کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان نے شاید اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ بدنام نہ ہوں۔ لوگ بھی ان کے اس عمل پر ناراض ہیں کہ خواتین کو اغوا کیا۔ میں نے خود ایک طالب رہنما کا پیغام سنا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کو رہا کر دیں اور ان کی رات یہاں نہ گزرے۔‘
47 سالہ زہرہ جلال گذشتہ 25 سال سے خوست میں عوام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے طالبان کے دور حکومت میں بھی سویڈن کے ایک طبی ادارے میں کام کیا تھا تاہم اس وقت ان کو موت کا ڈر نہیں تھا۔
زہرہ جلال کا کہنا ہے کہ ’اس دفعہ میں خوف میں مبتلا ہو گئی ہوں کیونکہ پہلے موت کا ڈر نہیں تھا، اب ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔‘
ان کے بقول ’آج کل افغانستان کا نظام متاثر ہے، ہر طرف مسائل ہیں اور ہر کسی نے اپنی چھوٹی بادشاہی قائم کی ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’زہرہ جلال کا پیچھا کر کے لوگر صوبے میں ان کو محافظین سمیت پکڑا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’زہرہ جلال خوست میں کابل کی صوبائی کونسل کی ممبر ہیں۔ انہوں نے سرکاری عہدوں پر کام کیا ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ’عمائدین کی اس ضمانت پر کہ یہ ہمارے خلاف کام نہیں کریں گی، ان کو واپس بھیجا گیا ہے۔ یہ صرف دو گھنٹے ہمارے پاس رہیں۔‘
افغانستان میں خواتین طالبان کے گذشتہ دور کو یاد کر کے پریشان ہیں۔
کابل میں صحافی شبنم دوران کا کہنا ہے کہ زہرہ جلال کے واقعے سے خواتین کے ذہنوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ خواتین ڈر بھی رہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان میں مزاحمت بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھ صوبوں میں خواتین نے ہتھیار تک اٹھا لیے ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی بھی ہیں۔ ‘ ان کے مطابق زہرہ جلال کی جلد واپسی بھی اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان کے مزاج میں بھی تبدیلی آئی ہے۔