نواز شریف چُپ، شہباز شریف بھی چُپ، نون لیگ کو چُپ کیوں لگ گئی؟
نواز شریف چُپ، شہباز شریف بھی چُپ، نون لیگ کو چُپ کیوں لگ گئی؟
جمعرات 29 جولائی 2021 5:47
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں مریم نواز نے متاثر کن انتخابی مہم چلائی (فائل فوٹو: مریم نواز ٹوئٹر)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مسلم لیگ ن کی بدترین شکست اور پھر سیالکوٹ ضمنی انتخاب میں اپنی سیٹ ہارنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت صدمے کا شکار ہے۔
جہاں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں پارٹی کے صدر شہباز شریف اور قائد نواز شریف کی طرف سے مکمل خاموشی نظر آرہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں مریم نواز نے متاثر کن انتخابی مہم چلائی اور بڑے بڑے جلسے کیے جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ وہ مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تاہم ان کے کامیاب جلسے ان کی انتخابی کامیابی میں نہ بدل سکے اور پارٹی کو مایوس کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری طرف پوری انتخابی مہم میں پارٹی کے صدر اور مریم نواز کے چچا شہباز شریف مکمل طور پر منظر سے غائب نظر آئے۔
ناصرف وہ کسی جلسے میں شریک نہ ہوئے بلکہ ٹوئٹر تک پر بھی کشمیر یا سیالکوٹ الیکشن اور دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے کوئی خاص بیان نہیں دیا۔ ہاں وفاقی کابینہ کے رکن علی امین گنڈاپور کی طرف سے مریم نواز کو تھپڑ مارنے اور نامناسب زبان استعمال کرنے کی مذمت ضرور کی۔
ناصرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نہیں گئے بلکہ پنجاب کے اندر قائم کشمیری حلقوں میں بھی انہوں نے کسی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہ لیا نتیجتاً پارٹی اپنے گڑھ پنجاب کی نشتوں پر بھی توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
اسی طرح پارٹی کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف بھی کشمیر الیکشن سے قبل تو ضرور بولے مگر نتائج آنے کے بعد سے خاموش ہیں۔
بعض حلقوں کی طرف سے تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں مریم نواز کو فری ہینڈ دے کر اور ان کو انتخابی مہم کا انچارج بنا کر ان کی انتخابی معرکہ لڑنے کی صلاحتیوں کا ٹیسٹ لیا گیا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
احتجاجی بیانیے سے الیکشن نہیں جیتے جا سکتے: سہیل وڑائچ
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کی سینیئر ترین قیادت کشمیر الیکشن کے بعد شاید اس لیے خاموش ہے کہ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں غلطی ہوئی کہاں ٹھیک ہوا اور مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ نہیں سمجھتے کہ شہباز شریف کی خاموشی کوئی پیغام ہے بلکہ واضح ہے کہ پارٹی کی سیاست مریم نواز کرتی ہیں اور شہباز شریف پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے صرف ایک ہی جلسہ کیا اور وہ پی ڈی ایم کا جلسہ تھا۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’مسلم لیگ ن میں بیانیے کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ احتجاجی بیانیے کو انتخابی بیانیے میں بدلنا ہوتا ہے۔ احتجاجی بیانیے سے الیکشن نہیں جیتے جا سکتے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پارٹی کو احتجاجی موڈ سے انتخابی موڈ میں نہیں لے جا سکی۔ جلسے بڑے بڑے ہوئے مگر نتائج درست نہیں آئے۔‘
کشمیر کی مہم میں کشمیر کے مسائل پر بات نہیں ہوئی: مجیب الرحمان شامی
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’مسلم لیگ ن میں اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے۔ مریم نواز کشمیر میں مہم چلا رہی تھیں اس لیے شہباز شریف نے جانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ اس سے کنفیوژن پیدا ہوتی۔‘
مریم نواز کا اپنا نکتہ نظر ہے شہباز شریف کا اپنا، اور جب پارٹی نے فیصلہ کیا کہ مریم نواز مہم چلائیں گی تو شہباز شریف نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر میں مسلم لیگ ن کو 25 فیصد سے زائد ووٹ پڑے اس لیے پارٹی کا ووٹ بینک تو موجود ہے وہ نشتوں میں منتقل نہیں ہوا۔‘
’پاکستان پیپلز پارٹی نے کم ووٹ لیے مگر زیادہ نشتیں اسے ملیں۔ برطانوی نظام جمہوریت میں ایسا ہو جاتا ہے۔‘
مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ ’کشمیر الیکشن میں مہم شہباز شریف کے مزاج کے مطابق نہ تھی کیونکہ اس مہم میں اسلام آباد ہدف تھا اور زیادہ تر گفتگو پاکستان کی سیاست کے بارے میں ہی کی گئی۔‘
’اس میں یہ خیال نہ رکھا گیا کہ یہ کشمیر کا الیکشن ہے اور پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں ذاتی طور پر الیکشن مہم مناسب نہیں لگی کیونکہ مسلم لیگ ن کی وہاں حکومت رہی ہے۔ انہیں اپنی کارکردگی پر ووٹ مانگنا چاہیے تھا۔‘
’مگر وہاں وہی معاملات زیر بحث آئے جو پاکستان کی سیاست میں موضوع ہوتے ہیں۔بحیثیت مجموعی سنجیدہ حلقوں میں یہ مہم پسند نہیں کی گئی۔‘
مسلم لیگ ن کا ووٹر کنفیوز رہا تو 2023 کے انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے: مظہر عباس
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مریم نواز اور شہباز شریف کا مزاج الگ الگ ہے اور جس ٹیمپو پر مریم نواز انتخابی مہم کو لے جا سکتی ہیں اس پر شہباز شریف نہیں لے جا سکتے اس لیے مہم کو مریم نواز کے ہی حوالے کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دونوں رہنما ساتھ ساتھ جلسوں میں جاتے تو پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوتا۔ شہباز شریف کی غیر موجودگی سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہوا اور اس بیانیے کو تقویت ملی کہ پارٹی اختلافات کا شکار ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’سیالکوٹ کی شکست پارٹی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے کیونکہ پارٹی پنجاب میں اب تک جیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی اور سیالکوٹ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ شاید سیالکوٹ پر بھی کشمیر میں ہار کا اثر پڑا ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’اب مسلم لیگ ن کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کا ووٹر کنفیوزڈ رہے گا۔ پارٹی کو مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی ورنہ 2023 کے عام انتخابات میں بھی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
سیاسی حلقوں میں ہونے والی اس بحث کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے موقف کے لیے پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا اور انہیں سوالات بھی بھیجے گئے مگر انہوں نے کہا کہ ’وہ اس پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتیں۔‘
تاہم مریم نواز سمیت پارٹی کے متعدد رہنما ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ شہباز شریف اور مریم نواز کے نکتہ نظر میں فرق ہوسکتا ہے مگر پارٹی کے اندر کوئی دراڑ نہیں ہے اور اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔