Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طورخم سرحد: ’بارڈر مینجمنٹ کی وجہ سے دراندازی نہ ہونے کا یقین ہے‘

چلچلاتی ہوئی دھوپ میں نوجوان کے چمکتے ہوئے چہرے پر پسینے کی بوندیں گر رہی ہیں اور چوکس کھڑے ہوئے اس کی سبز فوجی وردی بھیگ رہی ہے۔ یہاں یکایک ایک آواز بلند ہوتی ہے اور وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن کو مزید مستعدی سے سنبھال لیتا ہے۔
یہ نوجوان افغان فوج کا اہلکار ہے جو اس وقت طور خم بارڈر پر پہرہ دے رہا ہے۔ لیکن چند ثانیے پہلے ہونے والے ایک واقعے کے باعث مضطرب ہو گیا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ منگل کو پاکستان نے غیر ملکی صحافیوں کو طورخم سرحد کا دورہ کروایا۔ لیکن جونہی صحافی سرحد پر  پاکستانی حدود کے اندر سے افغانستان کی طرف کی تصویریں بنانے لگے تو ایک افغان اہلکار نے للکار کر انہیں منع کر دیا۔
ادھر سے کچھ پاکستانی فوجی دوڑتے ہوئے گئے تاکہ افغان اہلکاروں سے بات کر کے میڈیا کو تصویروں کی اجازت دلوائی جا سکے۔ اس صورتحال میں گن تھامے وہ نوجوان افغان فوجی کنفیوز ہو کر کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگیا۔
یہ بظاہر سرحد پر روزانہ پیش آنے والے معمول کے واقعات میں سے ایک ہے لیکن یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مد و جزر کے شکار تعلقات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
اس سے چند ثانیے پہلے طورخم سرحد کے پاکستانی کمانڈر کرنل رضوان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس سرحد پر صورتحال انتہائی نارمل ہے اور فی الحال یہاں پر نہ تو مہاجرین کی آمد کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی کسی غیر قانونی آمدورفت کا۔
کرنل رضوان نے میڈیا کو بریفنگ میں بتایا کہ اس وقت طورخم سے کوئی پاکستانی افغانستان نہیں جا سکتا اور کوئی افغان شہری پاکستان نہیں آ سکتا۔
تاہم بعد ازاں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات زیادہ خراب ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔

کرنل فرید کے مطابق پاکستان نے بارڈر کے ساتھ 843 پوسٹیں بھی مکمل کرلی ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

کتوں کی مدد سے منی لانڈرنگ کی روک تھام

حکام کا کہنا تھا کہ طورخم بارڈر پر آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کے کئی ادارے جن میں فرنٹئیر کور، فوج، سول انتظامیہ، پولیس، کسٹمز، این ایل سی، ایف آئی اے، نادرا، انسداد منشیات فورس کے علاوہ یو این ایچ سی آر اور انٹرنیشل مائیگریشن آرگنائزیشن بھی کام کر رہے ہیں۔
 کرنل فرید نے بتایا کہ طورخم بارڈر پر منی لانڈرنگ روکنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ کتے بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے اب تک بڑی مقدار میں ڈالرز، ریال اور افغان کرنسی برآمد کی جا چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پر آمدورفت کی آسانی کے لیے 16 ارب روپے کی لاگت سے 728 کنال جگہ پر ایک بڑا ٹرانزٹ کمپلیکس  بنایا جا رہا ہے جو جولائی 2023 میں مکمل ہو گا۔
حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان راستوں کو سینٹرل ایشیا تک کھولنا چاہتا ہے اور اس منصوبے کی تکمیل سے اس میں بڑی پیش رفت ہو گی۔
طورخم کے بعد صحافیوں کو خیبر ایجنسی میں بلند و بالا پہاڑوں کے اوپر واقع بگ بینگ پوسٹ پر لے جایا گیا۔ پہاڑی کی چوٹی تک بنی ہوئی بل کھاتی کنکریٹ روڈ سے جب پوسٹ پر پہنچے تو افغانستان کا صوبہ ننگرہار نیچے بالکل سامنے نظر آرہا تھا۔ 

پاکستانی پوسٹ سے افغانستان کا صوبہ ننگرہار نیچے بالکل سامنے نظر آتا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

افغانستان سے پاکستان آنے جانے والے اب صرف پانچ راستے

یہاں واچنگ پوائنٹ پر کرنل فرید نے بتایا کہ کل دو ہزار 600 کلو میٹر میں سے دو ہزار 280 کلومیٹر پر فینسنگ کا کام مکمل ہو چکا ہے اور اب یہاں سے افغانستان یا پاکستان کے اندر دراندازی کا کوئی امکان نہیں۔
انہوں نے بارڈر پر لگے کیمرے اور ان سے ہونے والی مانیٹرنگ کا سسٹم بھی دکھایا۔ فینسنگ کے ساتھ ساتھ پیٹرولنگ کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے دستے بھی دور دور تک نظر آ رہے تھے۔
کرنل فرید کے مطابق پاکستان نے بارڈر کے ساتھ 843 پوسٹیں بھی مکمل کرلی ہیں اور ان کی تکمیل سے سکیورٹی کی صورتحال میں مزید بہتری آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین اب صرف پانچ انٹری اور ایگزٹ پوائنٹس ہیں جو طورخم، غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی اور چمن کے مقام پر ہیں۔

سرحد پر پاکستانی فوج کے اہلکار چوکس کھڑے ہوتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اس موقع پر کرنل فرید نے بتایا کہ سرحد پر پیٹرولنگ اور فینسنگ سے نہ صرف سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے بلکہ اس سے برسوں سے جاری ڈیورنڈ لائن کا تنازع بھی ختم ہو گیا ہے۔
جب حکام سے پاکستان سے افغانستان میں دراندازی نہ ہونے کے یقین کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ’ہماری مکمل بارڈر مینیجمنٹ کی وجہ سے ہمیں اس بات کا یقین ہے۔‘
بلین ٹری سونامی افغان سرحد پر بھی
پہاڑیوں پر قطاروں میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے درخت بھی لگے ہوئے ہیں۔ یہ درخت حکومت کے ایک ارب درختوں کا حصہ ہیں جنہوں نے یہاں کی خشک پہاڑیوں کو بھی خوبصورت بنا دیا ہے۔

شیئر: