Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان نے مستقبل کی حکومت میں ’بڑا حصہ‘ مانگنے کا دعویٰ مسترد کر دیا

زلمے خلیل زاد نے کہا ’امریکی حمایت سے شروع ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان اور افغان حکومت ’ایک دوسرے سے کافی فاصلے‘ پر ہیں۔‘(فوٹو، اے ایف پی)
طالبان نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان مستقبل کی حکومت میں ’لائنز شیئر‘ یعنی بڑا حصہ چاہتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان کا ذاتی خیال ہے، ہم نے خلیل زاد کی باتیں سنی ہیں لیکن ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو لوگوں کے اسلامی جذبات کے مطابق ہو۔ ہم طاقت کی اجارہ داری یا اقتدار میں اہم نوع کی شراکت داری نہیں چاہتے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے۔ ہمیں نے اسلام کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ قوم اب تھک چکی ہے۔ اب یہاں ایک مکمل اسلامی حکومت ہونی چاہیے اور سب لوگوں کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ اس حکومت میں سب افغانوں کو شریک کیا جائے گا۔‘
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے منگل کو اسپن سکیورٹی فورم کی ایک ورچوئل کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس وقت وہ (طالبان) عسکری صورت کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی حکومت میں ’لائنز شیئر‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’تقریباً ایک سال قبل دوحہ، قطر میں امریکی حمایت سے شروع ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان اور افغان حکومت ’ایک دوسرے سے کافی فاصلے‘ پر ہیں۔‘
2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں کیے گئے حملے کے بعد انٹرا افغان مذاکرات اس تنازعے کو حل کرنے کی جانب پہلا قدم تھے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان متنازع اور خفیہ مذاکرات کے اصل منصوبہ ساز زلمے خلیل زاد ہی تھے، صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کو ان مذاکرات سے الگ رکھا گیا تھا۔
فروری میں انہی مذاکرات کے نتیجے میں قطر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ایک معائدہ ہوا تھا جس کے مطابق امریکہ 14 ماہ میں اپنی تمام فوج افغانستان سے نکالنے پر رضامند ہوا تھا۔ اس کے بعد زلمے خیل زاد نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوحہ میں مارچ میں ہونے والے مذاکرات کی سہولت کاری کی تھی۔
امریکہ کی جانب سے انخلا کی حتمی تاریخ کے اعلان کے بعد سے طالبان نے حملوں نے تیزی لائی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں طالبان نے افغانستان کے کچھ سرحدی علاقوں سمیت متعدد مقامات پر قبضے کے دعوے بھی کیے ہیں۔ افغانستان کی سرکاری فورسز اور طالبان  کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
خیال رہے کہ مئی اور جون میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 24 سو افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔

شیئر: