Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات آج کل کیسے ہیں؟

دوحہ معاہدے کے باوجود کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ جس دوحہ معاہدے کے تحت اپنی افواج کو افغانستان سے نکال رہا ہے، اس کی ایک شق طالبان کو پابند کرتی ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سرزمین کسی بھی شدت پسند گروہ کو استعمال نہیں کرنے دیں گے لیکن اس کے باوجود بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان، پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
رواں سال جون میں پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے افغان طالبان سے اپیل کی تھی کہ ’وہ امید کرتے ہیں کہ افغان طالبان کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا اس طرح کے دوسرے عناصر کو پاکستانیوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس وقت افغان طالبان کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر نور ولی محسود نے اپنی کتاب ’انقلاب محسود‘ میں لکھا تھا کہ ’ان کے گروہ کا قیام افغان طالبان اور دیگر جنگجوؤں کی منشا سے عمل میں آیا تھا۔‘
مفتی نور ولی محسود کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ’امارت اسلامی‘ یعنی افغان طالبان ماضی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی نہ صرف مدد کرتی رہی ہے بلکہ اس کے مخالفین کے ساتھ بھی سخت رویہ اختیار کرتی تھی۔‘
پاکستانی اداروں نے جب سنہ 2014 میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف آپریشن رد الفساد شروع کیا تو اس کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی اکثریت نے افغانستان کا رخ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ شدت پسند گروہ اندرونی انتشار کا شکار تھا اور آپس کے جھگڑے بھی اکثر خون خرابے کا باعث بنتے تھے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے افغان طالبان کے حوالے سے امید ظاہر کی تھی کہ وہ پاکستانیوں کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اپنی کتاب میں مفتی نور ولی محسود نے 2016 کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ ’کیسے افغان صوبے پکتیکا میں امارت اسلامی‘ یعنی طالبان نے وہاں موجود ’مہاجرین‘ اور اہل علاقہ کو مطلع کیا کہ پکتیکا میں صرف ان لوگوں کو رہنے کی اجازت ہے جو تحریک طالبان پاکستان، محسود مجاہدین یا حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک ہیں۔ ساتھ انتباہ بھی کیا کہ دیگر گروہوں کے خلاف افغان طالبان خود کارروائی کریں گے۔
افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تعلقات کی نوعیت جاننے کے لیے اردو نیوز نے دونوں گروہوں کے ترجمانوں کو سوالات بھیجے لیکن ہفتہ گزرجانے کے باوجود بھی ان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تاہم امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک تازہ انٹرویو میں مفتی نور ولی محسود نے اپنے گروہ اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے درمیان تعلقات ’بھائی چارے، ہمدردی اور اسلامی اصولوں‘ کے عین مطابق ہیں۔
احسان اللہ احسان جو پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بعد میں جماعت الاحرار کے ترجمان رہے، ایک فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ’جب داعش کا افغان صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں ’ظہور‘ ہوا تو افغان طالبان نے خود خالد خراسانی کے زیرسایہ تنظیم جماعت الاحرار سے رابطہ کیا اور انہیں داعش کو روکنے اور مقابلہ کرنے کا مشن سونپا جو اس جماعت نے کامیابی سے پورا کیا اور داعش کو ان صوبوں میں پنپنے سے روکا۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت الاحرار مفتی نور ولی محسود کے امیر بننے کے بعد دوبارہ تحریک طالبان کا حصہ بن چکی ہے۔
جب احسان اللہ احسان سے رابطہ کرکے پوچھا گیا کہ آج کل افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے تعلقات کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ’تعلقات ویسے ہی ہیں، جیسے میں نے لکھے ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘
احسان اللہ احسان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم محقق عبد السید کہتے ہیں کہ ’تحریک طالبان کی قیادت کی تحریروں اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں گروہوں کے تعلقات 2015 میں خطے میں داعش کی مقامی خراسان شاخ کے ابھرنے کے بعد تقویت پا گئے۔ جب تحریک طالبان نے بالآخر افغان طالبان کے موقف کی حمایت کی اور داعش میں شمولیت سے اجتناب کیا۔‘
اس کے بعد افغان طالبان کی طرف سے تحریک طالبان کو اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں مزید آزادی مل گئی۔
عبد السید مزید کہتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ ’افغان طالبان اگر افغانستان میں حکومت بناتے ہیں تب بھی تحریک طالبان پاکستان کو دبا سکتے ہیں یا اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی سے وابستہ جنگجوؤں کی تعداد تقریباً چھ ہزار ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تحریک طالبان کی پاکستان اور أفغانستان کے درمیان موجود قبائل میں مضبوط جڑیں ہیں۔
پچھلے سال اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ جنگجوؤں کی تعداد تقریباً چھ ہزار ہے۔
نیویارک میں موجود تجزیہ کار اور شدت پسند گروہوں پر تحقیق کرنے والی پروفیسر امیرہ جدون نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغان طالبان شاید تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان پر حملے کرنے سے روکنے کی طاقت رکھتے ہوں۔‘
’لیکن ان کا ماننا ہے کہ افغان طالبان کے پاکستانی طالبان اور پاکستانی ریاست دونوں سے ماضی اور موجودہ زمانے میں تعلقات رہے ہیں اور انہی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان طالبان پاکستانی ریاست اور شدت پسند گروہ کے درمیان تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے مرکز برائے بین الاقوامی سلامتی اور تعاون سے تعلق رکھنے والے اسفندیار میر کا بھی یہی ماننا ہے کہ ’افغان طالبان کی مرضی کے بغیر تحریک طالبان پاکستان کا افغان علاقوں سے کارروائیاں کرنا مشکل ہے۔‘
اسفندیار میر جنہوں نے پچھلے دنوں خاصا وقت پاکستان اور افغانستان میں گزارا، نے اردو نیوز کو بتاتا ہے کہ ’تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے جنگجو افغان صوبوں پکتیکا اور کنڑ کے علاقوں میں ساتھ ہی مقیم ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اپنی بقا کے لیے افغان طالبان پر انحصار کرتی ہے، جبکہ افغان طالبان کا حقانی نیٹ ورک پاکستانی طالبان کے جنگجوؤں کی دیکھ بھال کے لیے افغان طالبان کو معاوضہ بھی فراہم کرتا ہے۔‘
ان کا اندازہ ہے کہ دیگر شدت پسند گروہوں کی طرح تحریک طالبان پاکستان بھی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے ٹھکانے برقرار رکھے گی۔

شیئر: