Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ، برطانیہ میں پٹیشن دائر

پٹیشن میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کو ریڈ لسٹ سے ہٹایا جائے۔ ہزاروں لوگ پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں (فوٹو اے ایف پی)
برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے اور انڈیا کو نکالنے پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک پٹیشن شیئر کی ہے جس میں پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعرات کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ پٹیشن شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پٹیشن: پاکستان کو سفر کی ریڈ لسٹ سے ہٹایا جائے۔‘
برطانیہ میں دائر کی گئی ایک پٹیشن میں پاکستان کو ریڈ لسٹ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس پٹیشن پر ووٹ کا حق صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو ہے اور اب اس پر 60 ہزار سے زائد لوگوں نے الیکٹرانک دستخط کیے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ ’ریڈ لسٹ پر نظرثانی معمول کے مطابق ہوتی ہے اور ستمبر میں اس پر دوبارہ نظرثانی کی جائے گی۔‘
اگر اس پٹیشن پر ایک لاکھ افراد دستخط کر دیتے ہیں تو اسے برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔
پٹیشن میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کو ریڈ لسٹ سے ہٹایا جائے۔ ہزاروں لوگ پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور فیملیز مالی طور پر پریشان ہیں۔ کوئی براہ راست پرواز مہیا نہیں ہے۔ گھر آنے میں ہماری مدد کریں۔‘
برطانیہ میں بریڈ فورڈ ویسٹ کی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے کہا ہے کہ ’مجھے حیرانگی ہے کہ انڈیا کو ایمبر لسٹ میں شامل کیا گیا اور پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اس حکومت نے قرنطینہ کے حوالے سخت رویے کا مظاہرہ کیا ہو۔‘
ناز شاہ نے کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کا ایک لاکھ افراد میں ہفتہ وار انفیکشن ریٹ 20 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں ایک لاکھ افراد میں ہفتہ وار انفیکشن ریٹ 14 فیصد ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل اس حکومت نے انڈیا کو ریڈ لسٹ میں نہ ڈال کر سائنس کے بجائے سیاست کو آگے رکھا اور ہماری قوم کی کورونا سے لڑنے کی کوششوں کو خطرے میں ڈالا۔ اس کا نتیجہ ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلنے کی صورت میں نکلا۔‘
برطانوی ممبر پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’خاندان کئی مہینوں سے ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کے فیصلوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
دوسری جانب پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کے حکام نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ریڈ لسٹ پر نظرثانی معمول کے مطابق ہوتی ہے اور ستمبر میں اس پر دوبارہ ںظر ثانی کی جائے گی، جبکہ یہ فیصلہ صحت عامہ کو دیکھ کر کیا گیا ہے ۔‘  

برطانوی ہائی کمیشن کے حکام کے مطابق ’فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ عوام کی صحت عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘  (فوٹو اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’برطانوی حکومت نے جوائنٹ بائیو سیکیورٹی سنٹر کے ممکنہ نقصان کے خدشے کی روشنی میں پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ عوام کی صحت عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘   
برطانوی حکام نے کہا کہ ’بائیو سیکیورٹی سنٹر میں ہر ملک  کے حوالے سے کورونا وائرس کی بدلتی ہوئی ساخت اور اس کے پھیلاو کی شرح اور متعلقہ ملک میں موجود مختلف اقسام کے وائرس پھیلاو کے خدشے کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘  
حکام سے جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح انڈیا کے مقابلہ میں انتہائی کم ہے جبکہ ڈیلٹا ویرئینٹ کا وائرس انڈیا سے ہی پھیل رہا ہے اس کے باوجود پاکستان ریڈ لسٹ میں کیوں موجود ہے، جس پر برطانوی ہائی کمیشن حکام نے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ریڈ لسٹ پر نظرثانی معمول کے مطابق ہوتا ہے اور ستمبر میں اس پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے گی۔‘ 

شیئر: