’عارف حسن پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے نوازشریف ہیں‘
لیٖٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسن بلامقابلہ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ (فوٹو: جاپانی سفارتخانہ)
جاپان کے شہر ٹوکیو میں منعقدہ اولمپکس میں ارشد ندیم اور طلحہٰ طالب سمیت 10 پاکستانی کھلاڑیوں نے حصہ لیا لیکن کوئی بھی کھلاڑی میڈل جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ارشد ندیم جیولن تھرو اور طلحہٰ طالب ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کو میڈلز کے قریب لے آئے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود بھی قسمت ان پر مہربان نہ ہوسکی۔
پاکستان نے اولمپکس کے دوران انفرادی کھیلوں میں آخری بار کوئی تمغہ 1988 میں جیتا تھا، یہ کانسی کا تمغہ حسین شاہ نے باکسنگ کے مقابلے میں اپنے نام کیا تھا۔ اس کے علاوہ اولمپکس کا مجموعی طور پر آخری تمغہ پاکستان کی ہاکی ٹیم نے 1992 میں بارسلونا میں جیتا تھا۔
ٹوکیو اولمپکس میں پاکستانی دستے کی کارکردگی پر سوشل میڈیا صارفین میڈل جیتنے میں ناکامی کا ملبہ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عارف حسن پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اس موضوع پر ہونے والی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے تازہ بیان نے شائقین کھیل کو مزید بھڑکا دیا ہے۔
اتوار کی روز نجی نیوز چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے عارف حسن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کو نکھارنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔
ٹوئٹر صارف عامر تنولی ان کے اس بیان پر کہتے ہیں کہ ’وہ کیا سمجھے تھے کہ ان کی نوکری کیا ہے؟ کیا ان پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی کہ وہ ایک ایسا نظام ترتیب دیں جس میں ٹیلنٹ نشوونما پا سکے؟‘
ٹوئٹر پر صارفین ان کے اس عہدے سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ایک صارف کاشف چوہدری کہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ کے مطالبے سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہوا ہے کہ ارشد ندیم کو قومی اولمپک کمیٹی سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ان منصبوں پر ہمیں بہتر لوگوں کی ضرورت ہے یا شاید خود ارشد ندیم کی۔
ایک اور صارف سمیر صدیقی کہتے ہیں کہ سید عارف حسن 2004ء سے نیشنل اولمپکس کمیٹی کے صدر ہیں اور ان 17 برسوں میں پاکستان ایک بھی میڈل نہیں جیت پایا۔ ’ہم کیسے کچھ بھی جیت سکتے ہیں جب ایسے لوگ اونچی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔‘
اویس گیلانی کہتے ہیں کہ ایک ایسا ملک جس کا وزیراعظم سابقہ کھلاڑی ہو اس ملک کی کھیلوں میں ایسی کارکردگی افسوس کا مقام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عارف حسن ’پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے نوازشریف ہیں۔‘