اثر صاحب ان کے اشعار میں ضروری ردوبدل اور تصحیح کرنے کے علاوہ انہیں شعر کہنے پر مجبور کرتے او بقول ڈاکٹر مختار، یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا
محمد عامل عثمانی ۔مکہ مکرمہ
ڈاکٹر مختار حیات جن کا اصل نام ’’محمد مختار احمد‘‘ ہے۔ وہ 3ستمبر 1941ء کوغیر منقسم ہندوستان کے شہر سہارنپور قصبہ نکوڑ میں طبیب حاذق حکیم محمد اختر صادق کے ہاں پیدا ہوئے اور1949ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے۔اسوقت سے شہر کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری، آئی بی اے سے انڈسٹریل ریلیشن و پرسنل مینجمنٹ کا سر ٹیفکیٹ اور پاکستان سینٹرل ہومیو پیتھک کالج سے ڈی ایچ ایم ایس کی سند حاصل کی۔ 1956-57ء میں ہائی اسکول میں تعلیم کے دوران شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ اسکول ہی میں اردو کے استاد رفیق اثر بنارسی کو جو خود بھی معروف بزرگ شاعر تھے ، شعر دکھائے اور کچھ دنوں ان سے رجوع کرتے رہے۔ اثر صاحب ان کے اشعار میں ضروری ردوبدل اور تصحیح کرنے کے علاوہ انہیں شعر کہنے پر مجبور کرتے او بقول ڈاکٹر مختار، یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ 2 یا3 سال بعد اثر صاحب کا انتقال ہوگیا اور یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔اس کے بعد انہوں نے کسی سے رجوع نہیں کیا۔
شاہ فیصل کالونی میں اسوقت علامہ رسوا میرٹھی، علامہ گویا جہاں آبادی، عزم اکبر آبادی، سرشار صدیقی، رحمن کیانی ، حمایت علی شاعر ، وقار صدیقی، تحسین سروری، مسلم ضیائی، اطہر نفیس، قاضی شفیع، حسین انور اور کچھ دوسرے نامور شعراء اور ادیب مقیم تھے جن سے رابطہ رہتا اور وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ۔ رحمن کیانی کی رہائش پر روز شام کو سب جمع ہوتے۔ مختلف امور ، مقامی سیاست کے علاوہ شعری اور نثری ادب پر طویل گفتگو ہوتی ۔ اس کے علاوہ شعری نشست لازماً ہوتی اور داد وتحسین کے ساتھ تقدیم و تاخیر سے ہٹ کر بے لاگ تنقید بھی کی جاتی تھی۔ اس طرح ہر ایک کو انفرادی طور سے اپنی تخلیقات پر نظر ثانی کا موقع ملتا۔ اس سلسلے نے مختار حیات کی خاصی مدد کی ۔ یہی ایک ذریعہ ان کے اشعار کی تصحیح کا تھا۔انہوں نے باقاعدہ کبھی کسی کو اپنا استاد نہیں بنایا اور نہ کسی سے اصلاح لی۔انہیں جن شعراء کے ساتھ مشاعروں اور نشستوں میں شعر سنانے کاانہیں موقع ملا ان میں تابش دہلوی، محشر بدایونی، ماہر القادری، نازش حیدری، حرماں خیرآبادی، مجیب خیر آبادی، حفیظ ہوشیار پوری، سراج الدین ظفر، سلیم احمد، کرارنوری، اسحق اطہر صدیقی،ساقی جاوید، نگار صہبائی، خالد علیگ، وقار صدیقی، صہبا اختر، ساقی امروہوی، جوہر سعیدی، قمر ہاشمی، محسن بھوپالی، عبیداللہ علیم اور دوسرے حضرات شامل ہیں۔ مختار حیات متقدمین میں میر تقی میر، مرزا غالب اور داغ کو پسند کرتے ہیں بلکہ ان شعرائے کرام کو اپنا روحانی استاد سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مختار حیات کے بقول انہوں نے آج تک کبھی خود کو مکمل نہیں سمجھا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے ماحول اور اطراف و جوانب میں رونما ہونے والے واقعات و حالات کے علاوہ مطالعے کو اپنی اساس سمجھا اور اپنے تخلیقی سفر کی بنیاد بنایا۔ شعراء و ادباء کی مجالس سے بے حد استفادہ کیا۔ ان کی نگاہ میں موجودہ زمانے سے استادی اور شاگردی کا معاملہ ایک مذاق ہوکر رہ گیا ہے۔ اساتذہ، شاگردوں کو سادہ کاغذ پر اصلاح دیتے ہیں جو ادبی اقدار اور صحتمند ادب کی ضرورت کے منافی ہے اور یہ کہ ادب کی کوئی خدمت انجام نہیں دی جارہی بلکہ یہ ادبی انحطاط کا باعث بن رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے لوگ اردو ادب کی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔ سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کا رویہ علمی، ادبی، فنی اور تہذیبی بددیانتی ہے۔ مختار حیات1958ء سے باقاعدہ شاعری کررہے ہیں مگر گوناگوں مصروفیات ، ذمہ داریوں اور گھریلو و خاندانی مسائل و معاملات ، سوئی گیس کی کل وقتی ملازمت، شام کو ہومیو پیتھک مطب اور زندگی کی دیگر مصروفیات کے باعث ان کی شعر گوئی کی رفتار سست رو رہی تاہم ان کی شعری تخلیقات کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ وہ ذاتی وجوہ کے تحت اب تک اپنا شعری مجموعہ شائع نہیں کرسکے۔ سرشار صدیقی، نگار صہبائی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور دوسرے بزرگ معاصرین کے تقاضوں کے تحت مجموعہ لانے کی تیاری شروع کی اور بڑی حد تک اس پر کام کر بھی لیا لیکن ناگزیر ذاتی معاملات و مسائل آڑے آگئے اور یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ڈاکٹر مختار حیات کو 2015ء سے خرابی صحت کا سامنا ہے اس کے باوجود ان کی کوشش ہے کہ رواں سال2017ء میں بشر ط حیات و صحت مجموعہ شائع کردیں۔ اچھے شعری رویوں اور تخلیقی معامالت کیلئے بہتر ہے کہ زندگی کے مختلف النوع تجربات کا اظہار جملہ شعری و ادبی روایات و لوازمات کے ساتھ کیا جائے۔
عہد حاضر کے جن تخلیق کاروں بالخصوص شعراء نے ان عوامل کا خیال رکھتے ہوئے شعر تخلیق کئے ان میں ڈاکٹر مختار حیات کا نام شامل ہے۔ وہ گزشتہ50 سال سے زائد عرصے سے شعر کہہ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے شعری رویے اور فکر وخیالات فقط ذہنی اختراع نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ جہتی تجربات، خیالات و تصورات پر مشتمل ہیں۔ ان کے ہاں نت نئے تجربات، خیالات اور فکر بھرپور انداز میں ملتے ہیں۔ وہ زندگی کی اصل حقیقتوں پر گہری نظر اور اظہار پر گرفت رکھتے ہیں۔ ادبی ، سماجی اور تنظیمی سطح پر ڈاکٹر مختار حیات بہت فعال رہے ہیں۔ 1957ء میں شہر کراچی کی تیسری بڑی ادبی تنظیم ’’ایوان تمدن‘‘ سرشار صدیقی کی تحریک پر قائم ہوئی اور ڈاکٹر مختار حیات کو تنظیم کا ’’اعزازی معتمد عمومی‘‘ مقرر کیا گیا۔ڈاکٹر مختار’’پاکستان رائٹرز گلڈ ‘‘کے رکن رہے۔ رائٹرز کلب کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جس کے منتظم اعلیٰ سرشار صدیقی تھے۔ مختار حیات کو اس ادارے کا اعزازی شریک معتمد عمومی مقرر کیا گیا۔ علاوہ ازیں1977ء سے 1986ء تک بین الاقوامی سطح پر’’یو این او‘‘کے ذیلی اداروں کے فعال رکن رہے اور پاکستان میں ان اداروں کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بھی رہے۔ مختلف ممالک میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت بھی کی۔ ان کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف بھرپور دردمند ،فکری رویے کے حامل ہیں۔نمونے کے طور پر چند اشعار قارئین کی نذر:
گزر گئے تری دنیا سے بے نظارہ ہم
اس آرزو میں کہ دنیا تری دکھائی دے
٭٭٭
میں خواب سے چونکا تو یہ دیکھا کہ مری روح
تلوار لئے میرے ہی سینے پہ کھڑی ہے
٭٭٭
چھینٹے جو تھے لہو کے سردار کیا ہوئے
یعنی نقوش جرأت گفتار کیا ہوئے
اتنی خبر تو ہے کہ وہ دیوار گر پڑی
پرساکنان سایہ دیوار کیا ہوئے
٭٭٭
خاموشیوں کا زہر کہیں کام کر نہ جائے
دیوارو در پہ شہر کے لکھا ہے کچھ کہو
٭٭٭
مجھ سے تم بات تو کرکے دیکھو
مجھ سے بہتر مرا لہجہ ہوگا
٭٭٭
زمیں نگل گئی اسکو کہ وقت چاٹ گیا
وہ شخص دشت ہی پہنچا ، نہ گھر گیا یارو
٭٭٭
بھلا دوعہدِ گزشتہ کہ اک فسانہ ہوا
تمہاری عظمت و توقیر اک کہانی ہوئی
٭٭٭
تھک جاتے ہیں، دم لینے کو رک جاتے ہیں یہ لوگ
کچھ ان سے نہ اے سایۂ دیوار کہاکر
٭٭٭
کیا کرتا ہوں رات گئے کیوں آتا ہوں
بچوں کو یہ روز بتانا ہوتا ہے
کاندھوں پر جس گھر کو اٹھانا ہوتا ہے
اس گھر بھی کچھ کم ہی جاناہوتا ہے
٭٭٭
کسی طرف سے تو آئے صدائے کن فیکوں
کھلے تو مجھ پہ میں کیا ہوں ،کہاں ہوں اور کیوں ہوں
٭٭٭
میں اپنے سر پہ سجائے ہوئے تھا موم کا تاج
جو گھر سے نکلا تو سورج مرے شمال میں تھا
٭٭٭
ہوا ہے جب سے خود اپنے وجود کا ادراک
ترا وجود سمٹتا دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
کون آئے گا مسیحائی کو
حوصلہ چاہئے رسوائی کو
٭٭٭
مذاق جان کے میں نے کچھ توجہ دی
مگر وہ زہر تھا اور کام کر گیا یارو
٭٭٭
جب تذکرۂ دشمنی ٔدوستاں آیا
اسوقت رفیقوں پہ بڑی اوس پڑی ہے
٭٭٭
گرنی ہے اگر وقت کی دیوار تو گر جائے
ہم نے بھی تو سر وقف بہ دیوار کیا ہے
٭٭٭
گہرے سمندروں کی علامت عجیب تھی
ساحل پہ مچھلیوں کی ہلاکت عجیب تھی
٭٭٭
کرب کے گہرے سمندر میںہوں غلطاں تنہا
اور اک سلطنتِ درد کا سلطاں تنہا
******