پاکستان نے کہا ہے کہ ٹرانزٹ کے دوران افغان شہریوں اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والوں کے قیام و طعام کے اخراجات وہ ممالک برداشت کریں گے جو انھیں افغانستان سے نکال کر پاکستان لائیں گے جبکہ پاکستان یہاں پہنچنے والوں کو سکیورٹی، امیگریشن اور ٹرانزٹ سہولیات فراہم کرے گا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ٹرانزٹ کے دوران افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔
افغانستان سے افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے انخلا اور پاکستان میں ان کے قیام کے حوالے سے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان آنے والے افراد کی تعداد کا انحصار امریکہ اور دیگر ممالک پر ہے کہ انھیں اس سلسلے میں پاکستان سے کتنی معاونت درکار ہے۔‘
مزید پڑھیں
انھوں نے کہا کہ ’امریکہ اور اتحادی جتنے مرضی چاہیں افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان میں ٹرانزٹ کی سہولت سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ اس معاملے میں تعداد کو سامنے نہیں رکھا جائے گا۔ اتحادی جتنے مسافروں کو ٹرانزٹ دینے کی درخواست کریں گے انھیں ویزے جاری کر دیے جائیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان آنے والوں کو 30 دن کا ٹرانزٹ ویزہ جاری کیا جائے گا۔ مشکل ہے کہ انھیں ملک کے اندر بلا روک ٹوک نقل و حرکت کی اجازت دی جا سکے کیونکہ وہ ٹرانزٹ ویزہ پر ہوں گے۔ ٹرانزٹ ویزہ کے حوالے سے عالمی معیار یہی ہے کہ مسافر فراہم کی گئی سہولت سے باہر نہیں نکل سکتے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’افغانستان سے آنے والوں کو ایئر پورٹ لاؤنجز اور شہروں میں مخصوص مقامات پر رہائش فراہم کرنے کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔‘
پاکستانی حکام کے مطابق 15 اگست سے 27 اگست کے دوران افغانستان سے 1543 غیر ملکیوں سمیت 2983 افراد افغانستان سے اسلام آباد پہنچے ہیں۔ پاکستان پہنچنے والے افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کو 30 دن کے ٹرانزٹ ویزے جاری کیے گئے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36481/2021/000_9lr28q.jpg)
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق طورخم بارڈر سے 1902 افراد پاکستان پہنچے ہیں جن میں 1305 پاکستانی اور 583 افغان شہری ہیں۔ نور خان ایئر بیس پر 72 غیر ملکیوں نے لینڈ کیا جن میں ایک بھی پاکستانی اور افغان شہری شامل نہیں تھا۔
اسلام آباد ایئر پورٹ پر مجموعی طور پر 1013 افراد کو لایا گیا جن میں 874 افغان شہری اور 139 پاکستانی شہری شامل تھے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں اگلے 21 دن کے لیے ہوٹلوں کو مزید بکنگ سے روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اب اطلاعات ہیں کہ یونیورسٹیوں اور مارکیز میں بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں تاہم ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اس کی تردید کی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36481/2021/000_9lf4gy.jpg)