افغان طالبان کی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پریڈ
افغان طالبان کی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پریڈ
منگل 31 اگست 2021 5:09
امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد طالبان کی سپیشل فورس ’بدری 313‘ نے کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی سنبھال لی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو طالبان رہنماؤں نے سپیشل فورسز کے لباس میں ملبوس جنگجوؤں کے ہمراہ ایئر پورٹ کا دورہ کیا جہاں پر تباہ شدہ امریکی ہیلی کاپٹروں کا بھی جائزہ لیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سمیت دیگر عہدیداروں نے فاتحانہ انداز میں ایئر پورٹ کے رن وے پر کھڑے ہو کر تصاویر کھنچوائیں جبکہ امریکی رائفل اٹھائے ہوئے ’بدری 313‘ یونٹ نے سفید جھنڈے لہرائے۔
قبل ازیں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے کے بعد امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل میں طالبان نے جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کی۔
انخلا کی مایوس کن کوششوں کی نگرانی کرنے والے آخری امریکی فوجی پیر کی رات کو کابل ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے، جس کے بعد انخلا مکمل ہو گیا ہے۔ تاہم اس نے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان جنگجو تیزی سے ہوائی اڈے میں داخل ہوئے اور امریکہ کو دو دہائیوں بعد شکست دینے پر فتح کا جشن منایا اور ہوائی فائرنگ کی۔
روئٹرز کے مطابق آخری امریکی فوجی طیارے سی 17 نے پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق رات کے 11 بج کر 59 منٹ پر کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پرواز بھری تھی۔ کابل ایئرپورٹ سے اڑنے والے اس آخری امریکی فوجی طیارے میں قائم مقام امریکی سفیر راس ولسن اور امریکی فوج کے 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے سربراہ بھی موجود تھے۔
امریکہ کے افغانستان سے انخلا مکمل ہونے کے موقع پر سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا کہ امریکہ نے افغانستان سے سفارتی عملہ قطر کے درالحکومت دوحہ منتقل کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کو عالمی سطح پر کسی بھی قسم کی حمایت اور قانونی حیثیت حاصل کرنی پڑی گی۔
سیکریٹری خارجہ نے مزید کہا کہ دو سو سے کم امریکی شہری ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں جو وہاں سے نکلنے کے خواہش مند ہیں۔
کابل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان نے مکمل آزادی حاصل کر لی ہے۔
منگل کے روز ذبیح اللہ مجاہد نے دیگر قیادت کے ہمراہ کابل ایئر پورٹ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر طالبان ترجمان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’افغانستان کو مبارکباد۔۔۔ یہ ہم سب کی فتح ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
’ہم ان تمام (ممالک) کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کی شکست دوسرے حملہ آوروں اور ہماری مستقبل کی نسل کے لیے بڑا سبق ہے۔ یہ دنیا کے لیے بھی ایک سبق ہے۔‘
انخلا مکمل ہونے کے موقع پر طالبان کے سینیئر رہنما انس حقانی کا کہنا تھا کہ یہ تاریخی لمحات دیکھتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے پینٹاگون میں بریفنگ کے دوران کہا کہ 20 سال کے بعد امریکی فوج کا ایک بھی اہلکار افغانستان میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے انخلا کے عمل کو انتہائی ’دل خراش‘ لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم ان سب کو نہیں نکال سکے جنہیں نکالنا چاہتے تھے۔‘
دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا ہے کہ طالبان کی نئی حکومت بننے کا انتظار کریں گے جس کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ طالبان اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے شہریوں کو افغانستان سے نکلنے دیں گے یا نہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ’طالبان نے وعدہ کیا ہے، لیکن آئندہ دنوں اور ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا کہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان نے جامع حکومت کی تشکیل کے حوالے سے عزم کا اعادہ کیا ہے تاہم آئندہ دنوں میں پتا چل جائے گا کہ ان کا وعدہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔
خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے امریکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن 31 گست مقرر کی تھی جس سے ایک دن پہلے ہی تمام فوجیوں کو نکالنے کا عمل مکمل کر لیا گیا۔ امریکہ کی افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران 2 ہزار 400 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
ایسے موقع پر جب طالبان میدان جنگ سے نکل کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے جا رہے ہیں، کسی بھی قسم کا طاقت کا خلا تحریک کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔
تاہم انخلا کے بعد طالبان کے حریف گروپ ’داعش‘ کا خطرہ بھی سامنے آیا ہے جس نے کابل ایئرپورٹ پر امریکی افواج کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ داعش کے اس حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان کے لیے جنگ زدہ ملک کو چلانا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا جہاں بے حد غربت اور خشک سالی کے علاوہ داعش کی جانب سے بھی خطرات کا سامنا ہے۔ امریکہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ناکام رہا ہے۔
علاوہ ازیں طالبان کے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان اپنے پہلے دور حکومت کے قوانین دوبارہ لاگو کر دیں گے جس کے تحت خواتین اور بچیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی تھی۔
یاد رہے کہ 14 اگست کو شہریوں انخلا کے آپریشن کے دوران ایک لاکھ 23 ہزار لوگوں کو کابل ایئرپورٹ سے خصوصی پروازوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا گیا تھا۔
علاوہ ازیں روئٹرز کے مطابق 40 فیصد سے کم امریکی شہری صدر جو بائیڈن کی انخلا سے متعلق حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ تین تہائی کے خیال میں تمام امریکی شہریوں کے افغانستان سے نکلنے تک فوج کو تعینات رہنا چاہیے تھا۔
27 سے 30 اگست تک کے درمیان ہونے والے قومی سروے کے نتائج کے مطابق 51 فیصد امریکی شہری صدر جو بائیڈن کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کرتے جبکہ صرف 38 فیصد نے مکمل انخلا کی حمایت کی ہے۔