مظاہرین نے بینر بھی تھام رکھے تھے جبکہ ان کی جانب سے اسلام آباد پر مداخلت کا الزام بھی لگایا گیا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے حساس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ جنرل فیص حمید نے بھی سنیچر کو کابل کا دورہ کیا تھا۔ میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں جنرل فیض حمید نے کہا تھا وہ کابل میں پاکستان کے سفیر سے بریفنگ لینے آئے ہیں۔ لیکن امکان ہے کہ انہوں نے طالبان حکام سے بھی ملاقات کی ہوگی۔
گذشتہ روز شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں بھی خواتین نے اپنے حقوق کے حوالے سے احتجاجی ریلی نکالی تھی۔ جبکہ گزشتہ ہفتے ہرات شہر میں خواتین نے طالبان کی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
منگل کو کابل میں ہونے والے مظاہرے ایسے موقع پر منعقد ہوئے ہیں جب طالبان نے گذشتہ روز پنجشیر میں لڑائی جیتنے کے بعد ملک کا مکمل قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
مظاہرین نے پاکستان پر مداخلت کا الزام عائد کیا۔ فوٹو اے ایف پی
اگست کے وسط میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پنجشیر میں طالبان کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی تھی۔
پیر کو طالبان نے وادی پنجشیر کو ’مکمل فتح‘ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مزاحمتی تحریک کے رہنما اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان کے خلاف ’قومی بغاوت‘ کی اپیل کی تھی۔
فتح کا اعلان کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ ’کسی نے بھی مسلح بغاوت کے آغاز کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا، ہم ایک اور بغاوت کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا تھا کہ پہلے مرحلے میں عبوری حکومت کا اعلان کیا جائے گا جس میں تبدیلی کی گنجائش ہوگی۔
طالبان نے جامع حکومت کی تشکیل کا وعدہ کیا تھا جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہوگی، تاہم خواتین کو ممکنہ طور پر شامل نہیں کیا جائے گا۔
طالبان کے پچھلے دور اقتدار میں خواتین کے حقوق سلب کیے گئے تھے۔ اس مرتبہ خواتین کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت اس شرط پر دی گئی ہے کہ مرد اور خواتین طلبہ علیحدہ بیٹھیں گے جبکہ خواتین عبایہ پہنیں گی۔