Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے نئے احکامات کے بعد افغان یونیورسٹیوں سے طلبہ غائب

طالبان کی جانب سے تعلیمی اداروں پر عائد نئی پابندیوں کے بعد دارالحکومت کابل کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے پہلے دن کابل کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر اور طلبہ انتہائی کم تعداد میں موجود تھے۔
طالبان نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت چند شرائط کی بنیاد پر دی ہے جن کے تحت عبایہ پہننا لازمی ہے جبکہ کلاس رومز میں خواتین اور مرد طلبہ کےعلیحدہ بیٹھنے کا انتظام کیا جائے گا۔
کابل میں غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی نے تقریباً خالی کیمپس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے طلبہ یہ (پابندیاں) قبول نہیں کرتے اور ہمیں یونیورسٹی بند کرنی پڑے گی۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’ہماری طالبات حجاب پہنتی ہیں، نقاب نہیں کرتیں۔‘
طالبان نے یونیورسٹی اور کالج جانے والی خواتین طالبات کے لیے پردے کی شرط میں عبایہ پہننا اور چہرے کا نقاب لازمی قرار دیا ہے جس سے آنکھوں کے علاوہ پورا چہرہ چھپ جائے۔
طالبان کی جانب سے اتوار کو نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے تفصیلی احکامات جاری کیے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین اور مرد طلبہ کی علیحدہ کلاسز ہوں گی، یا پھر کلاس روم میں پردہ لگا کر مرد اور خواتین طلبہ کو علیحدہ کیا جائے۔

افغانستان کے مختلف شہروں میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا۔ فوٹو اے ایف پی

غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی کا کہنا تھا کہ ’ہم (پابندیاں) اس لیے قبول نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ حقیقی اسلام نہیں ہے اور نہ ہی قران ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘
طالبان کی جانب سے جاری نئے احکامات کے مطابق خواتین طالبات کو صرف خواتین یا پھر عمر رسیدہ مرد اساتذہ ہی پڑھا سکیں گے جبکہ خواتین علیحدہ راستے سے یونیورسٹی یا کالج میں داخل ہوں گی۔
خواتین طالبات کی کلاس مردوں سے پانچ منٹ پہلے ختم کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ خواتین اور مردوں کو آپس میں ملنے جلنے سے روکا جا سکے۔
یہ ہدایات ان تمام نجی کالجز اور یونیورسٹیوں کے لیے جاری کی گئی ہیں جن کی تعداد میں سنہ 2001 میں طالبان کا پہلا دور ختم ہونے کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ تاہم سرکاری یونیورسٹیوں سے متعلق طالبان نے فی الحال کوئی احکامات نہیں جاری کیے۔
تاہم چند طالبات کو یہ سن کر تسلی ہوئی ہے کہ طالبان کے نئے دور حکومت میں خواتین یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھ سکیں گی۔
افغانستان میں خواتین کے لیے سکالر شپ پروگرم چلانے والی خاتون زہرہ برمن نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی چند طالبات سے بات ہوئی ہے اور وہ یونیورسٹی واپس جانے پر خوش ہیں اگرچہ انہیں عبایہ پہننا پڑ رہا ہے۔

طالبان کے اقتدار سے پہلے کابل میں طلبہ اکھٹے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ فوٹو اے ایف پی 

زہرہ برمن کا کہنا تھا کہ طالبان کا خواتین کے لیے یونیورسٹیاں کھولنا ایک اہم پیش رفت ہے، بات چیت جاری رکھیں گے تاکہ دیگر حقوق اور آزادیوں پر بھی آمادہ ہو سکیں۔
کابل میں ابن سینا یونیورسٹی کے ترجمان جلیل تدجلیل نے کہا کہ خواتین اور مردوں کے علیحدہ داخلے کے انتظامات کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے جو فیصلہ مسلط کیا ہے اسے قبول یا مسترد کرنے کا انہیں حق حاصل نہیں ہے۔
عام طور پر تعلیمی سال کے پہلے دن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کا رش دکھائی دیتا ہے لیکن پیر کے روز کابل کے تعلیمی ادارے خالی تھے۔
غرجستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر نور علی رحمانی نے بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں صرف 10 سے 20 فیصد طلبہ آئے ہیں۔
انہوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد 30 فیصد تک طلبہ افغانستان سے چلے گئے ہیں۔

شیئر: