Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار پریس گیلری بند، صحافیوں کا پارلیمان کے اندر باہر احتجاج

صحافیوں سے یکجہتی کے لیے اپوزیشن رہنماؤں نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا احتجاج ایک معمول کی روایت ہے اور حکومت اس کے لیے نہ صرف تیار ہوتی ہے بلکہ اسے کچھ زیادہ سنجیدہ بھی نہیں لیتی۔
لیکن صدر مملکت عارف علوی کے پیر کے روز پارلیمان سے خطاب کے وقت ایوان کے اندر، پارلیمانی گیلریوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایک نہیں کئی احتجاج اور مظاہرے دیکھنے کو ملے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے صحافیوں کی جانب سے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف پارلیمانی پریس گیلری سے واک آؤٹ کے خدشے کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار پریس گیلری کو تالے لگوا کر صحافیوں کا داخلہ بند کر دیا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے صدارتی خطاب کی کوریج کے لیے صحافیوں کو ماضی کے برعکس محدود تعداد میں کارڈز جاری کیے گئے بلکہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے پارلیمان کور کرنے والے صحافیوں کے بجائے اپنے من پسند افراد کو کارڈز جاری کیے تاہم کارڈز رکھنے والوں کو بھی کوریج کی اجازت نہ ملی۔
جس کے باعث پارلیمانی رپورٹرز نے پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر مہمانوں کی آمد کے لیے بچھائے گئے ریڈ کارپٹ پر دھرنا دے دیا۔
صحافیوں کے اس دھرنے میں سابق سپیکر ایاز صادق سمیت مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام سمیت متعدد جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
صحافیوں کے دھرنے کے دوران گورنر پنجاب، نیول چیف سمیت غیر ملکی سفیر صدر کا خطاب سننے پارلیمان آئے اور دھرنے کے درمیان سے گزر کر ایوان میں مہمانوں کی گیلریوں پہنچے۔
سابق سپیکر ایاز صادق نے قرار دیا کہ ’سپیکر کی جانب سے پارلیمانی پریس گیلری بند کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ ایسا کبھی آمرانہ ادوار میں بھی نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ سپیکر نے نہیں بلکہ کسی اور نے کیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ ’عمران خان چاہتے ہیں کہ سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔

قومی اسمبلی حکام نے اجلاس کے وقت پریس گیلری کو تالے لگوا کر صحافیوں کا داخلہ بند کر دیا تھا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

صدر کا خطاب شروع ہوا تو صحافی پارلیمانی راہداری سے اٹھے اور سپیکر چیمبر کے باہر جا کر دھرنا دے دیا۔ صحافی پریس گیلری کو بحال کرو، سپیکر کو آزاد کرو، صدر مملکت کی توہین نامنظور کے نعرے بلند کرتے رہے۔
دوسری جانب ایوان کے اندر صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کر دیا۔ جس میں وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی پالیسیوں کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی گئی۔ اپوزیشن ارکان نے مجوذہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ تاہم صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا احتجاج ٹی وی پر نہیں دکھایا۔
اپوزیشن کے احتجاج میں قومی اسمبلی میں قائد حزب شہباز شریف، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی، بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر کافی متحرک نظر آئے۔
ایوان میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شاہراہ دستور پر صحافیوں کے  اتوار سے جاری دھرنے میں پہنچ گئے جہاں انھوں نے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافتی تنظیموں نے مجوذہ پی ایم ڈی اے بل کے خلاف اتوار سے دھرنا دے رکھا ہے جس سے شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا۔

رپورٹرز نے پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر مہمانوں کی آمد کے کے لیے بچھائے گئے ریڈ کارپٹ پر دھرنا دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اس دھرنے میں صحافیوں کے علاوہ وکلا تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
دھرنے میں ٹی وی سکرینوں سے غائب ٹی وی اینکرز نے اپنے اپنے شو بھی کیے جس میں سیاست دانوں اور صحافی رہنماؤں نے شرکت کرتے ہوئے مجوزہ بل کو مسترد کیا۔
اجلاس ختم ہوا تو سپیکر چیمبر کے باہر دھرنا دیے صحافیوں کے احتجاج میں بھی شدت آگئی۔ صدر مملکت کا سٹاف انھیں لینے کے لیے سپیکر چیمبر پہنچا لیکن صحافیوں کے احتجاج کے باعث صدر مملکت سپیکر چیمبر آنے کے بجائے دوسرے راستے سے اپنے چیمبر چلے گئے جہاں سے وہ ایوان صدر روانہ ہوئے۔
صدر مملکت جب صحافیوں کے سامنے سے گزرے تو صحافیوں نے صدر مملکت کی توہین نامنظور اور سپیکر کو آزاد کرو کے نعرے لگوائے۔

صحافیوں کے حق میں سیاستدانوں نے احتجاج ریکارڈ کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اجلاس کے خاتمے کے بعد گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور سروسز چیفس بلحاظ پروٹوکول روانہ ہوتے ہیں تاہم سپیکر چیمبرز کے باہر صحافیوں کے احتجاج کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس انتظامیہ نے انھیں مقررہ راستوں کے بجائے متبادل راستوں سے باہر نکالا۔
پارلیمان کے اندر اپوزیشن، راہداریوں اور شاہراہ دستور پر صحافیوں کے علاوہ وزارت تعلیم اور دیگر اداروں سے نکالے گئے ملازمین بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ وہ حکومت سے اپنی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ان تمام احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے باوجود پارلیمانی جمہوری روایت کے برعکس حکومت نے کسی ایک فریق سے بھی بات کرنے، انھیں احتجاج ختم کرنے اور ان کے مطالبات کی منظوری یا ان پر کسی قسم کی یقین دہانی کے لیے کسی کو بھی نہیں بھیجا۔
پریس گیلری کی بندش پر جب صحافیوں نے وزیر اطلاعات فواد چودھری کی توجہ مبذول کرائی تو انھوں نے قطعی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے بند کی ہوگی ابھی دیکھ لیتے ہیں۔

شیئر: