Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر صحافیوں کے تحفظات کیا؟

اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری بڑی شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حکومت نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجوزہ اتھارٹی کو آزادئی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ 
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس کومنسوخ کرنے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات، ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے ماتحت کام کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

پی ایم ڈی اے کی متنازع شقیں کیا ہیں؟ 

حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اس اتھارٹی میں سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر جرمانے اور سزا کی تجویز ہے۔ حکومت کی جانب سے غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جبکہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ 
اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری بڑی شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے، جس میں ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرنے یا این او سی حاصل کرنا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے۔ 
اس تجویز کو حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ 
پی ایم ڈی اے کے تحت وفاقی حکومت ریگولیٹر اتھارٹی کو کوئی بھی ہدایت جاری کرسکتا ہے جس پر اتھارٹی من و عن عمل درآمد کرانے کی پابند ہوگی۔
 اس سے قبل الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ وزارت اطلاعات کے ماتحت تو کام کرتا ہے، لیکن اس کی تشکیل اور ممبران آزاد حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ 
اس اتھارٹی کے تحت کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک مدت کے لیے کام کرنے سے روکنے کا اختیار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ 
اس کے علاوہ اتھارٹی کے تحت ریاست کے سربراہ، مسلح افواج کے سربراہ کے علاوہ قانون ساز اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے مواد نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔

میڈیا ڈویلپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ 

وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کے مطابق پی ایم ڈی اے کا مقصد جعلی خبروں کی روک تھام اور میڈیا ورکرز کو حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

فرخ حبیب کے مطابق ’اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد ملک میں صحافیوں کو روزگار کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے قیام کا مقصد جعلی خبروں کی نشر و اشاعت روکنا ہے تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کی جائے اور زرد صحافت کی حوصلہ شکنی ممکن ہو۔‘
فرخ حبیب کے مطابق ’اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد ملک میں صحافیوں کو روزگار کا تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ میڈیا مالکان کی جانب سے جاری صحافیوں کا مالی استحصال روکا جا سکے، بروقت تنخواہیں دی جائیں اور ملازمت سے برطرف کرنے کا ایک طریقہ کار وضع ہونا چاہیے۔‘ 
وزیر مملکت نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’جعلی خبر دینے پر صحافیوں اور ادارے پر جرمانے ضرور تجویز کیے گئے ہیں۔ تاہم قید کی سزا کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ  کرنے کے لائسنس جاری کرنے کی تجویز نہیں بلکہ صرف رجسٹریشن کرنے کی تجویز ہے تاکہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فامرز پر کام کو ریگولیٹر کیا جا سکے اور ورکرز کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا گیا کہ پی ایم ڈی اے کو آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیا جائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں لے جانے سے پہلے قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث لایا جا رہا ہے اور صحافتی تنظیموں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ بل منظور کروایا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ اس بل کے حوالے سے اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں میں انتہائی تشویش پائی جارہی ہے، جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں بل پر حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

شیئر: