جامع حکمت عملی سے ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات کم ہو سکتے ہیں؟
جامع حکمت عملی سے ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات کم ہو سکتے ہیں؟
پیر 20 ستمبر 2021 14:21
ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک 21.6 کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
نیویارک میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی میزبانی میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر ایک اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔ پیر کو ہونے والے اجلاس میں دیگر عالمی رہنما بھی شریک ہوں گے۔
واضح رہے کہ بورس جانسن نومبر میں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ بورس جانسن شرکا پر زور دیں گے کہ ’متعلقہ ممالک میں کاربن کا اخراج کم کیا جائے، خاص طور پر کوئلے کا استعمال۔‘
گذشتہ ہفتے مالدیپ کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نئے صدر عبداللہ شاہد نے عرب نیوز کو بتایا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی ان کی عہدِ صدارت کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہوگی۔
اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ مالدیپ دنیا میں سب سے کم زمینی سطح پر واقع ہے۔ اس پوزیشن پر ہونے کی وجہ سے مالدیپ کو گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سمندر کی بڑھتی سطح کا خطرہ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
عالمی بینک کی رواں ماہ کے اوائل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو 2050 تک 21 اعشاریہ چھ کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔
یہ تعداد ان افراد سے 20 گنا زیادہ ہے جو شام میں خانہ جنگی کے بعد بے گھر ہوئے تھے۔
اگر شمالی امریکہ کی بات کی جائے تو عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی وہاں سے ایک اعشاریہ نو کروڑ افراد کو در بدر کر سکتی ہے۔ یہ تعداد تیونس کی کُل آبادی سے زیادہ ہے۔
بورس جانسن نومبر کے اجلاس میں کاربن کا اخراج کم کرنے پر زور دیں گے۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ لوگ سمندر کی بڑھتی سطح اور تازہ پانی تک رسائی میں کمی سمیت دیگر وجوہات کے باعث بے گھر ہوں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے ان سب کوششوں پر پانی پھِر سکتا ہے جو غربت ختم کرنے، بچوں کی شرح اموات کم کرنے، تعلیم اور ترقی کے لیے کی گئی ہیں۔
عالمی بینک میں ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کمیونیکیشن کی سربراہ کے طور پر کام کرنے والی فرزینہ بناجی نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کی روک تھام کے لیے کام کیا جائے، لیکن یہ وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ مستقبل میں خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)
ڈنمارک کی آلبوگ یونیورسٹی میں نقل مکانی پر تعلیم حاصل کرنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹرولز ہیڈیگارڈ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی تحقیق کے مطابق شمالی یورپ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کے مقابلے ان مہاجرین کو ترجیح دی جاتی ہے جو ذاتی وجوہات یا خانہ جنگی کی وجہ سے ملک چھوڑتے ہیں۔
’تاہم ان (ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں) کا خیر مقدم ان کے نسبت زیادہ کیا جاتا ہے جو معاشی وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑتے ہیں۔‘