وزیر اعظم مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پرواز پر سوتے نہیں ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں گذشتہ چند برسوں میں بہت کچھ بدلا ہے لیکن صحافت نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک زمانے میں خبر وہ مانی جاتی تھی جسے کوئی چھپانا چاہتا تھا باقی سب پراپیگنڈا تھا۔
لیکن آج کل لگتا ہے کہ کسی کے پاس چھپانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں اس لیے بے چارے صحافیوں کو پراپیگنڈا سے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔
پہلے نوجوان صحافیوں کو دو بنیادی سبق سکھائے جاتے تھے۔ کسی کی بھی بات پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں چاہے معلومات فراہم کرنے والا کوئی بھی ہو، اور خود سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ جو انفارمیشن فراہم کی گئی ہے وہ خبر کے زمرے میں آتی ہے یا پراپیگنڈا کے۔ اور پھر اس کے ساتھ خاطرخواہ سلوک کریں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بڑی تعداد میں صحافی اس تمام انفارمیشن کو خبر مان کر چلتے ہیں جو انہیں سرکاری ذرائع فراہم کرتے ہیں، آخر اپنی ہی حکومت پر اعتماد نہیں کریں گے تو پھر کس پر کریں گے؟
حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرنا اب صرف حکومت کے ترجمانوں کا ہی کام نہیں ہے۔ کئی ٹی وی چینل فل ٹائم بس یہ ہی کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور وہ اتنے طاقتور ہیں کہ ہوا کا رُخ جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی چند روز قبل امریکہ کے دورے پر تھے۔ ظاہر ہے کہ ٹی وی چینلوں کی ٹیمیں بھی ان کا دورہ کور کرنے کے لیے امریکہ پہنچی ہوئی تھیں اور وہاں انہوں نے بڑے عظیم الشان کارنامے انجام دیے لیکن ایک پر نگاہ ایسی ٹکی کے ہٹانے کا دل نہیں کیا۔
یہ ایک ٹی وی جرنلسٹ کی رپورٹ تھی۔ صحافی امریکہ میں کورونا وائرس سے مرنے والے لوگوں کے ایک میموریل میں کھڑا تھا۔
چاروں طرف حد نگاہ تک لاکھوں چھوٹے چھوٹے سفید جھنڈے زمین میں نصب تھے۔ اور ان جھنڈوں پر پسماندگان نے کورونا وائرس کی زد میں آکر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لیے پیغام لکھے ہوئے تھے۔۔۔
ویسے ہی جذباتی پیغام جو لوگ اپنے چاہنے والوں کے لیے لکھا کرتے ہیں: ہم تمہیں کبھی بھلا نہ پائیں گے، تم آخری سانس تک ہمارے دلوں میں زندہ رہو گے وغیرہ وغیرہ۔
ایسی جگہ جا کر آپ کو ایک مرتبہ پھر احساس ہوتا ہے کہ اس وائرس نے دنیا میں کتنی تباہی مچائی ہے، اور آپ تصاویر کے ذریعے اپنے ناظرین کو اس جانی نقصان کی ایک جھلک دکھا سکتے ہیں جو کبھی کبھی اعداد و شمار کی باریکیوں میں کہیں کھو سی جاتی ہے۔ اور کہہ سکتے ہیں کہ جانے والوں کو یاد کرنے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے۔
لیکن ہماری کہانی کے ہیرو کا فوکس مختلف تھا۔ ہمارے ہیرو کا خیال تھا کہ انڈیا میں جگہ جگہ بڑی تعداد میں جلنے والی چتاؤں کی تصاویر شائع کرکے ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور وہ چیخ چیخ کر پوچھ رہا تھا کہ جو لوگ آپ کو چتاؤں کی تصاویر دکھا رہے تھے انہوں نے آپ کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ امریکہ جیسے دولت مند ملک میں بھی لوگ کیسے مر رہے ہیں۔
بھائی، ہمیں معلوم تھا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اب خبر ہوئی ہو۔ لیکن جب اپنے بچے، بھائی بہن یا والدین کو سانس نہ آ رہا ہو، وہ دم توڑ رہے ہوں، اور بڑے بڑے ہسپتالوں میں بھی آکسیجن دستیاب نہ ہو تو تھوڑی تکلیف تو ہوتی ہی ہے، دل کو یہ کہہ کر تسلی دینا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ چلو امریکہ میں بھی تو لوگ مر رہے ہیں، دو چار ہمارے گھر والے بھی مرجائیں تو کیا فرق پڑتا ہے، موت سے کون کسی کو بچا سکا ہے؟
سوال یہ نہیں تھا کہ جو امریکہ میں ہو رہا ہے وہ انڈیا میں بھی ہوگیا تو کیا بڑی بات ہے بلکہ کیا اس سانحے کو روکا جاسکتا تھا اور کیا دوسری لہر میں جو تباہی ہوئی اس کے لیے حکومت کی غفلت بھی ذمہ دار تھی؟ بس اسی طرح کے کچھ فضول سوال۔
لیکن آج کل سوال پوچھنے کا فیشن ہی کہاں ہے۔ جب وزیراعظم نریندر مودی اور صدر بائیڈن کی ملاقات ہو رہی تھی تو صدر بائیڈن نے مذاق میں کہا کہ انڈین پریس کا رویہ امریکی پریس سے بہتر ہے۔ مطلب آپ خود نکال لیجیے، یا تو ان کا مطلب تھا کہ ہندوستانی صحافیوں کی تربیت بہت اچھی ہوتی ہے، انہیں قدیم تہذیبی اور روایتی اقدار کے سائے میں پالا جاتا ہے یا پھر صرف یہ کہ امریکی صحافی سوال بہت پوچھتے ہیں اور جواب ملنے تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔
دوسری ’خبر‘ انگریزی کے ایک بڑے اخبار میں چھپی تھی۔ عنوان تھا: جیٹ لیگ سے بچنے کے لیے وزیراعظم مودی کے تین راز۔
اب چونکے یہ معلومات اخبار میں چھپ چکی ہے تو آپ کو بھی بتا دیتے ہیں۔ خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق وزیر اعظم اپنی ’سلیپ سائیکل‘ پرواز کے دوران ہی اس ملک کے ٹائم زون کے مطابق سیٹ کر لیتے ہیں جہاں وہ جا رہے ہوں۔
پہلا راز یہ ہے کہ آپ خالی وقت نہ رکھیں۔ ایک کے بعد ایک میٹنگز ہوں گی تو تھکاؤٹ محسوس نہیں ہوگی (اور شاید نیند نہیں آئے گی)۔ ہم نے تو اپنے ہی ٹائم زون میں یہ آزما کر دیکھا ہے لیکن آفس کی پہلی میٹنگ میں ہی نیند آنے لگتی ہے وہ بھی پوری رات سونے کے بعد۔ اسی لیے کبھی وزیراعظم بننے کا خواب نہیں دیکھا۔
دوسرا راز ہے کہ کچھ میٹنگ پرواز کے دوران ہی نمٹا دی جائیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ سے واپسی میں پرواز کے دوران ہی مسٹر مودی نے چار میٹنگز میں شرکت کی۔
تیسرا راز یہ ہے کہ انڈیا میں چاہے رات بھی ہو رہی ہو، وہ پرواز کے دوران سوتے نہیں ہیں۔ اور ایسا ہی واپسی میں بھی کرتے ہیں۔ اور اس طرح جیٹ لیگ سے بچ جاتے ہیں اور جہاز سے بالکل ترو تازہ اترتے ہیں۔
لیکن اگر نہ جاتے میں سوئے اور نہ آتے میں تو پھر سوئے کب؟