Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے ریستوران میں ’خراب رویے‘ پر ایکٹیوسٹ خاتون‘ مشکل میں

موقع پر موجود افراد کے مطابق خاتون سے کورونا ایس او پیز پر عمل کا مطالبہ کیا گیا تھا (فوٹو: ویڈیو گریب)
کراچی کے ایک کیفے میں ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ اور ماسک سے متعلق پوچھنے پر غصے میں آ جانے والی خاتون کو جوابی بحث اور ’ہیومن رائٹ ایکٹیوسٹ‘ کے طور پر کرائے گئے تعارف کے بعد سوشل ٹائم لائنز پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سوشل ٹائم لائنز پر وائرل ہونے ویڈیو میں ایک خاتون کو جذباتی انداز میں گفتگو کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جو سامنے موجود افراد سے بحث کرتے ہوئے خود کو حاصل حقوق کی پامالی کا شکوہ کرتی ہیں، اور جواب سننے کے بجائے مسلسل بات کرتے کرتے اختتام پر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے اپنا تعارف انسانی حقوق کی کارکن کی طور پر کراتی ہیں۔
کراچی کے علاقے زمزمہ میں واقع اوکرا کے ٹیسٹ کچن میں پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو ٹویٹ کرنے والے اکاؤنٹ سے بتایا گیا کہ ’وہ ماسک پہننے سے انکار‘ کر رہی تھیں۔
غصے کا اظہار کرنے والی خاتون کی ویڈیو پر تبصرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔
واقعے پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ خاتون جس بات کو اپنے حق کی خلاف ورزی کہہ رہی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
’وہ کسی اور کی جگہ پر تھیں جہاں وہ حکومت کی جانب سے لازم قرار دی گئی بات پر عمل کو لازم قرار دے سکتا ہے۔ اگر انہیں ثبوت چاہیے تو سندھ ایپڈیمک ڈیزیز ایکٹ 2014 کے تحت انہیں پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت چارج کیا جا سکتا ہے۔‘
خاتون کے اصرار پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے ان کا تعارف جاننا چاہا تو دیگر نے جواب میں لکھا کہ ’وہ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں۔‘

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب صدیقی نے اپنے تبصرے میں خاتون کے ’خراب رویے‘ کے باوجود ’نرمی سے اصرار جاری رکھنے‘ پر اسد کو سراہا تو لکھا ’میں آپ کے سینڈویچ کا فین تھا ہی اب نرم مزاجی کا قائل بھی ہو گیا ہوں۔‘

ماریانہ بابر نامی ٹویپ نے ایسے واقعات میں اضافے کا امکان ظاہر کیا تو لکھا کہ ’کسی کو ایسے موقع پر ایمرجنسی کال کرنی چاہیے، پولیس اسے ہیومن رائٹس سمجھائے گی۔‘

البتہ ماریانہ بابر کی تجویز کے جواب میں تحفظ کا اظہار کرنے والے ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پولیس کو بلانا ہمیشہ غلط ہوتا ہے، اس سے کچھ اچھائی برآمد نہیں ہو سکتی۔‘
راشد نامی صارف نے حیرت کا اظہار کیا کہ ’پیسٹری شاپ کیسے آئین کی خلاف ورزی کر سکتی ہے‘ جب کہ فواد نامی ٹویپ نے غصے کے اظہار پر لکھا کہ ’آئینی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ کوئی سماجی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ حکومت کا لازم کردہ ایک کارڈ مانگنے پر آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو گئی۔‘
پاکستان میں حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے پیش نظر یکم اکتوبر سے ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کو لازم قرار دے رکھا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے بھی ستمبر کے وسط میں جاری کردہ ایک حکم نامے کے مطابق انڈورڈائننگ کی سہولت وہی افراد حاصل کر سکتے ہیں ریستوران جاتے ہوئے اپنا ویکسینیشن کارڈ اور سرٹیفیکیٹ اپنے ہمراہ رکھیں۔

شیئر: