Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان: ’ہمیں کلینک پر کام کرنا ہے ورنہ خواتین مر جائیں گی‘

تنگی سیداں گذشتہ حکومت میں بھی طالبان کے زیر کنٹرول تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وسطی افغانستان میں پہاڑوں کے بیچ میں واقع ایک گاؤں پر تقریباً 25 سال سے طالبان کا کنٹرول ہے، اس کے ایک اہم طبی مرکز میں خواتین مردوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبہ وردک کا علاقہ تنگی سیداں کبھی بھی افغانستان کی سابق حکومت کے مکمل کنٹرول میں نہیں رہا ہے۔  
تنگی سیداں میں ایک ہی کلینک ہے اور ڈاکٹر شریف شاہ اس کلینک کے واحد سرجن ہیں۔
’ہمیں یہاں پر کام کرنا ہے، اگر ہم نہیں کریں گے تو خواتین مر جائیں گی۔‘
قریب کے گاؤں سے کلینک پہنچتے ہوئے کئی گھنٹے لگتے ہیں اور سردیوں میں جب برفباری کی وجہ سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں تو مریضوں کو اکثر خود اٹھا کر لے جانا پڑتا ہے۔
اس کلینک کے 28 عملے کے ارکان میں سے سات خواتین ہیں۔ ایک نرس، ایک ویکسین لگانے کی ماہر، دو دایاں، ایک ماہر غذائیت اور دو خواتین صفائی کا کام کرتی ہیں۔
یہ خواتین اکثر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔
دایمیرداد ضلع میں طالبان کے محکمہ صحت کے انچارج محمد نے بتایا کہ ’جب ضروری ہو تو اسلامی قانون بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔‘
طالبان نے اگست میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تھا، تاہم ابھی واضح قواعدوضوابط جاری کرنے ہیں کہ وہ کیسے شریعت کے مطابق حکومت کریں گے۔
انہوں نے آغاز میں خواتین کو کام سے منع کیا اور کہا ہے کہ اسلامی نظام کے بننے تک وہ گھروں پر رہیں۔

تنگی سیداں کے کلینک میں صرف ایک ہی ڈاکٹر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بعد میں طالبان نے خواتین کو طبی مراکز اور ہسپتالوں میں کام پر واپس بلایا تاہم متعدد خواتین کام دوبارہ شروع کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
جبکہ کابل میں خواتین کا کہنا ہے کہ خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ نظام نے کام کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
جمیلہ جو تنگی سیداں کی واحد خاتون نرس ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کو کبھی بھی دایمیرداد ضلع میں کام کرنے میں مسئلہ نہیں ہوا۔ تاہم وہ جب بھی رات کے وقت ڈیوٹی کرتی ہیں تو ان کے ساتھ ایک محرم ضرور ہوتا ہے۔
جب کوئی مرد نرس نہیں ہوتا اس وقت ایک خاتون نرس ہی مرد مریضوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہوتی تو مرد ڈاکٹر ہی خواتین کا علاج کر سکتے ہیں۔
طالبان کے محکمہ صحت کے انچارج نے بتایا کہ ’مرد اور خواتین ایک ہی کمرے میں ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں تاہم عام حالات میں ان کے درمیان ایک پردہ ہونا چاہیے۔‘

قریبی گاؤں سے بھی مریض تنگی سیداں کے کلینک میں علاج کے لیے آتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ابھی تک تنگی سیداں کے کلینک میں کوئی پردہ نہیں اور نرس جمیلہ مرد ساتھیوں کے ساتھ کھل کر بات چیت کرتی ہیں۔
گذشتہ دور حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی یہ توقع کی جاتی تھی کہ خواتین کے لیے خواتین ڈاکٹر اور مردوں کے لیے مرد ڈاکٹر ہوں۔
جمیلہ کو تنخواہ کی ادائیگی سے متعلق تشویش ہے، ان کا کہنا ہے کہ آیا ان کو تنخواہ دی جائے گی یا نہیں۔
ملک کا نظام صحت تباہی کے دہانے پر ہے، طالبان کے کنٹرول کے بعد مغربی ممالک نے امداد روک دی ہے جبکہ سرکاری طبی اداروں میں عملے کو کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔

شیئر: